الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ
صَلَّی اللہُ عَلٰی حَبِیْبِہٖ سَیِّدِنَا مُحَمَّدِ وَّاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَبَارَکَ وَسَلَّمْ

سرکار غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حالات و واقعات


حصہ اول
تحریر: ۔ پیرمحمدامیرسلطان قادری چشتی آف اوگالی شریف خوشاب

اولیاء کرام رحمھم اللہ کی شان

(1) ۔ ۔ ۔ اللہ عزوجل قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولاھم یحزنون ہ (پ11، یونس: 62)

ترجمہ کنزالایمان: سن لو بے شک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم۔

(2) ۔ ۔ ۔ ایک اور جگہ ارشاد فرماتا ہے:

قل ان الفضل بیداللہ ج یؤتیہ من یشاء (پ3، آل عمران: 73)

ترجمہ کنزالایمان: تم فرما دو کہ فضل تو اللہ ہی کے ہاتھ ہے جسے چاہے دے۔

(3) ۔ ۔ ۔ سرکار مدینہ، قرار قلب و سینہ، باعث نزول سکینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے، “اطلبوا الخیر والحوائج من حسان الوجوہ ۔ یعنی بھلائی اور اپنی حاجتیں خوبصورت چہرے والوں سے طلب کرو۔“ (المعجم الکبیر، رقم 11110، ج11، ص67)

(4) ۔ ۔ ۔ اللہ عزوجل کے محبوب، دانائے غیوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ذیشان ہے: “من عادی للہ ولیا فقد بارزاللہ بالمحاربۃ ۔ یعنی جو اللہ عزوجل کے کسی دوست سے دشمنی رکھے تحقیق اس نے اللہ عزوجل سے اعلان جنگ کر دیا۔“ (سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب من ترجی لہ السلامۃ من الفتن، رقم 3989، ج4، ص350)

(5) ۔ ۔ ۔ حضور اکرم، نور مجسم، سرکار دو عالم، شہنشاہ بنی آدم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: “کوئی بندہ میرے فرائض کی ادائیگی سے بڑھ کر کسی اور چیز سے میرا تقرب حاصل نہیں کر سکتا (فرائض کے بعد پھر وہ) نوافل سے مذید میرا قرب حاصل کرتا جاتا ہے یہاں تک کہ میں اسے محبوب بنا لیتا ہوں، جب وہ میرے مقام محبت تک پہنچ جاتا ہے تو میں اس کے کان، آنکھ، زبان، دل، ہاتھ اور پاؤں بن جاتا ہوں، وہ میرے ذریعے سے سنتا، دیکھتا، بولتا اور چلتا ہے۔“

(6) ۔ ۔ ۔ امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ الباری اپنی معرکۃ الآرا تفسیر “تفسیر کبیر“ میں ایک روایت نقل فرماتے ہیں: “اولیاء اللہ لا یموتون ولکن ینقلون من دارالی دار“ یعنی بے شک اللہ عزوجل کے اولیاء مرتے نہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر منتقل ہو جاتے ہیں۔“ (التفسیر الکبیر، پ4، آل عمران: 169، ج3، ص427)

 

حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے مختصر حالات

سرکار بغداد حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا اسم مبارک “عبدالقادر“ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی کنیت “ابو محمد“ اور القابات “محی الدین، محبوب سبحانی، غوث الثقلین، غوث الاعظم“ وغیرہ ہیں، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ 470ھ میں بغداد شریف کے قریب قصبہ جیلان میں پیدا ہوئے اور 561ھ میں بغداد شریف ہی میں وصال فرمایا، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا مزار پرانوار عراق کے مشہور شہر بغداد شریف میں ہے۔ ( بہجۃ الاسرار و معدن الانوار، ذکر نسبہ و صفتہ، ص171، الطبقات الکبرٰی للشعرانی، ابو صالح سیدی عبدالقادر الجیلی، ج1، ص178 )

 

غوث کسے کہتے ہیں ؟

“غوثیت“ بزرگی کا ایک خاص درجہ ہے، لفظ “غوث“ کے لغوی معنی ہیں “فریادرس یعنی فریاد کو پہنچنے والا“ چونکہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ غریبوں، بے کسوں اور حاجت مندوں کے مددگار ہیں اسی لئے آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو “غوث اعظم“ کے خطاب سے سرفراز کیا گیا، اور بعض عقیدت مند آپ کو “پیران پیر دستگیر“ کے لقب سے بھی یاد کرتے ہیں۔

 

آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا نسب شریف

 

آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ والد ماجد کی نسبت سے حسنی ہیں سلسلہء نسب یوں ہے، سید محی الدین ابو محمد عبدالقادر بن سید ابو صالح موسٰی جنگی دوست بن سید ابوعبداللہ بن سید یحیٰی بن سید محمد بن سیدداؤد بن سید موسٰی ثانی بن سید عبداللہ بن سید موسٰی جون بن سید عبداللہ محض بن سید امام حسن مثنٰی بن سید امام حسن بن سیدنا علی المرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین اور آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنی والدہ ماجدہ کی نسبت سے حسینی سید ہیں۔ (بہجۃ الاسرار، معدن الانوار، ذکر نسبہ، ص171)

 

آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے آباء و اجداد

 

آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا خاندان صالحین کا گھرانا تھا آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے ناناجان، داداجان، والد ماجد، والدہ محترمہ، پھوپھی جان، بھائی اور صاحبزادگان سب متقی و پرہیزگار تھے، اسی وجہ سے لوگ آپ کے خاندان کو اشراف کا خاندان کہتے تھے۔

سید و عالی نسب در اولیاء است

نور چشم مصطفٰے و مرتضٰے است

 

 

آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے والد محترم

 

آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے والد محترم حضرت ابو صالح سید موسٰی جنگی دوست رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تھے، آپ کا اسم گرامی “سید موسٰی“ کنیت “ابو صالح“ اور لقب “جنگی دوست“ تھا، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جیلان شریف کے اکابر مشائخ کرام رحمہم اللہ میں سے تھے۔

 

“جنگی دوست“ لقب کی وجہ

 

آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا لقب جنگی دوست اس لئے ہوا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ خالصۃً اللہ عزوجل کی رضا کے لئے نفس کشی اور ریاضت شرعی میں یکتائے زمانہ تھے، نیکی کے کاموں کا حکم کرنے اور برائی سے روکنے کے لئے مشہور تھے، اس معاملہ میں اپنی جان تک کی بھی پروا نہ کرتے تھے، چنانچہ

ایک دن آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جامع مسجد کو جا رہے تھے کہ خلیفہ وقت کے چند ملازم شراب کے مٹکے نہایت ہی احتیاط سے سروں پر اٹھائے جا رہے تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے جب ان کی طرف دیکھا تو جلال میں آگئے اور ان مٹکوں کو توڑ دیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے رعب اور بزرگی کے سامنے کسی ملازم کو دم مارنے کی جراءت نہ ہوئی تو انہوں نے خلیفہء وقت کے سامنے واقعہ کا اظہار کیا اور آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے خلاف خلیفہ کو ابھارا، تو خلیفہ نے کہا: “سید موسٰی (رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ) کو فوراً میرے دربار میں پیش کرو۔“ چنانچہ حضرت سید موسٰی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ دربار میں تشریف لے آئے خلیفہ اس وقت غیظ و غضب سے کرسی پر بیٹھا تھا، خلیفہ نے للکار کر کہا: “آپ کون تھے جنہوں نے میری ملازمین کی محنت کو رائیگاں کر دیا ؟“ حضرت سید موسٰی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: “میں محتسب ہوں اور میں نے اپنا فرض منصبی ادا کیا ہے۔“ خلیفہ نے کہا: “آپ کس کے حکم سے محتسب مقرر کئے گئے ہیں ؟“ حضرت سید موسٰی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے رعب دار لہجہ میں جواب دیا: “جس کے حکم سے تم حکومت کر رہے ہو۔“

آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے اس ارشاد پر خلیفہ پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ سربزانو ہو گیا (یعنی گھٹنوں پر سر رکھ کر بیٹھ گیا) اور تھوڑی دیر کے بعد سر کو اٹھا کر عرض کیا: “حضور والا ! امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے علاوہ مٹکوں کو توڑنے میں کیا حکمت ہے ؟“ حضرت سید موسٰی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا: “تمہارے حال پر شفقت کرتے ہوئے نیز تجھ کو دنیا اور آخرت کی رسوائی اور ذلت سے بچانے کی خاطر۔“ خلیفہ پر آپ کی اس حکمت بھری گفتگو کا بہت اثر ہوا اور متاثر ہوکر آپ کی خدمت اقدس میں عرض گزار ہوا: “عالیجاہ ! آپ میری طرف سے بھی محتسب کے عہدہ پر مامور ہیں۔“

حضرت سید موسٰی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنے متوکلانہ انداز میں فرمایا: “جب میں حق تعالٰی کی طرف سے مامور ہوں تو پھر مجھے خلق کی طرف سے مامور ہونے کی کیا حاجت ہے۔“ اسی دن سے آپ “جنگی دوست“ کے لقب سے مشہور ہو گئے۔ (سیرت غوث الثقلین، ص52)

 

آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے ناناجان

 

حضور سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے ناناجان حضرت عبداللہ صومعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جیلان شریف کے مشائخ میں سے تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نہایت زاہد اور پرہیزگار ہونے کے علاوہ صاحب فضل و کمال بھی تھے، بڑے بڑے مشائخ کرام رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین سے آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے شرف ملاقات حاصل کیا۔

 

آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مستحاب الدعوات تھے

شیخ ابومحمد الداربانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: “سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مستحاب الدعوات تھے (یعنی آپ کی دعائیں قبول ہوتی تھیں۔) اگر آپ کسی شخص سے ناراض ہوتے تو اللہ عزوجل اس شخص سے بدلہ لیتا اور جس سے آپ خوش ہوتے تو اللہ عزوجل اس کو انعام و اکرام سے نوازتا، ضعیف الجسم اور نحیف البدن ہونے کے باوجود آپ نوافل کی کثرت کیا کرتے اور ذکر و اذکار میں مصروف رہتے تھے۔ آپ اکثر امور کے واقع ہونے سے پہلے ان کی خبر دے دیا کرتے تھے اور جس طرح آپ ان کے رونما ہونے کی اطلاع دیتے تھے اسی طرح ہی واقعات روپذیر ہوتے تھے۔(بہجۃ الاسررا، ذکر نسبہ۔ وصفتہ، رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ، ص 172)

 

آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی نیک سیرت بیویاں

 

حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنی شہرہ آفاق نصنیف “عوارف المعارف“ میں تحریر فرماتے ہیں:

“ایک شخص نے حضور سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے پوچھا: “یاسیدی ! آپ نے نکاح کیوں کیا ؟“ سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: “بے شک میں نکاح کرنا نہیں چاہتا تھا کہ اس سے میرے دوسرے کاموں میں خلل پیدا ہو جائے گا مگر رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا کہ “عبدالقادر ! تم نکاح کر لو، اللہ عزوجل کے ہاں ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے۔“ پھر جب یہ وقت آیا تو اللہ عزوجل نے مجھے چار بیویاں عطا فرمائیں، جن میں سے ہر ایک مجھ سے کامل محبت رکھتی ہے۔“

(عوارف المعارف، الباب الحادی والعشرون فی شرح حال المتجر دوالمتاھل من الصوفیۃ ۔ ۔ ۔ الخ، ص101، ملخصاً)

حضور سیدی غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی بیویاں بھی آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے روحانی کمالات سے فیض یاب تھیں آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے صاحبزادے حضرت شیخ عبدالجبار رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنی والدہ ماجدہ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ “جب بھی والدہ محترمہ کسی اندھیرے مکان میں تشریف لے جاتی تھیں تو وہاں چراغ کی طرح روشنی ہو جاتی تھیں۔ ایک موقع پر میرے والد محترم غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بھی وہاں تشریف لے آئے، جیسے ہی آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی نظر اس روشنی پر پڑی تو وہ روشنی فوراً غائب ہوگئی، تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا کہ “یہ شیطان تھا جو تیری خدمت کرتا تھا اسی لئے میں نے اسے ختم کر دیا، اب میں اس روشنی کو رحمانی نور میں تبدیل کئے دیتا ہوں۔“ اس کے بعد والدہ محترمہ جب بھی کسی تاریک مکان میں جاتی تھیں تو وہاں ایسا نور ہوتا جو چاند کی روشنی کی طرح معلوم ہوتا تھا۔“ (بہجۃ الاسرار و معدن الانوار، ذکر فضل اصحابہ ۔ ۔ ۔ الخ، ص196)

 

پھوپھی بھی مستحاب الدعوات تھیں

 

ایک دفعہ جیلان میں قحط سالی ہوگئی لوگوں نے نماز استسقاء پڑھی لیکن بارش نہ ہوئی تو لوگ آپ کی پھوپھی جان حضرت سیدہ ام عائشہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہا کے گھر آئے اور آپ سے بارش کے لئے دعاء کی درخواست کی وہ اپنے گھر کے صحن کی طرف تشریف لائیں اور زمین پر جھاڑو دے کر دعاء مانگی: “اے رب العٰلمین ! میں نے تو جھاڑو دے دیا اور اب تو چھڑکاؤ فرما دے۔“ کچھ ہی دیر میں آسمان سے اس قدر بارش ہوئی جیسے مشک کا منہ کھول دیا جائے، لوگ اپنے گھروں کو ایسے حال میں لوٹے کہ تمام کے تمام پانی سے تر تھے اور جیلان خوشحال ہو گیا۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکر نسبہ و صفتہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ، ص173)

 

آپ کی ولادت کی بشارتیں

 

(1) سرکار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی بشارت

محبوب سبحانی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے والد ماجد حضرت ابو صالح سید موسٰی جنگی دوست رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی ولادت کی رات مشاہدہ فرمایا کہ سرور کائنات، فخر موجودات، منبع کمالات، باعث تخلیق کائنات، احمد مجتبٰے، محمد مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم بمع صحابہ کرام آئمۃ الہدٰی اور اولیاء عظام رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ان کے گھر جلوہ افروز ہیں اور ان الفاظ مبارکہ سے ان کو خطاب فرما کر بشارت سے نوازا: “ یا اباصالح اعطاک اللہ ابنا وھو ولی و محبوبی و محبوب اللہ تعالٰی وسیکون لہ شان فی الاولیاء والاقطاب کشانی بین الانبیاء والرسل یعنی اے ابو صالح ! اللہ عزوجل نے تم کو ایسا فرزند عطا فرمایا ہے جو ولی ہے اور وہ میرا اور اللہ عزوجل کا محبوب ہے اور اس کی اولیاء اور اقطاب میں ویسی شان ہو گی جیسی انبیاء اور مرسلین علیہم السلام میں میری شان ہے۔“ (سیرت غوث الثقلین، ص55 بحوالہ تفریح الخاطر)

غوث اعظم (رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ) درمیان اولیاء

چوں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) درمیان انبیاء

 

 

(2) انبیاء کرام علیھم السلام کی بشارتیں:

حضرت ابو صالح موسٰی جنگی دوست رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو خواب میں شہنشاہ عرب و عجم، سرکار دو عالم، محمد مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ جملہ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام نے یہ بشارت دی کہ “تمام اولیاءاللہ تمہارے فرزند ارجمند کے مطیع ہوں گے اور ان کی گردنوں پر ان کا قدم مبارک ہو گا۔“ (سیرت غوث الثقلین، ص55 بحوالہ تفریح الخاطر)

جس کی منبر بنی گردن اولیاء

اس قدم کی کرامت پہ لاکھوں سلام

 

(3) حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی بشارت:

جن مشائخ نے حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی قطبیت کے مرتبہ کی گواہی دی ہے “روضۃ النواظر“ اور “نزہۃ الخواطر“ میں صاحب کتاب ان مشائخ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: “آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے پہلے اللہ عزوجل کے اولیاء میں سے کوئی بھی آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا منکر نہ تھا بلکہ انہوں نے آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی آمد کی بشارت دی، چنانچہ حضرت سیدنا حسن بصری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنے زمانہ مبارک سے لے کر حضرت شیخ محی الدین سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے زمانہء مبارک تک تفصیل سے خبردی کہ جتنے بھی اللہ عزوجل کے اولیاء گزرے ہیں سب نے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خبر دی ہے۔ ( سیرت غوث الثقلین، ص58 )

 

(4) حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی بشارت:

آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ “مجھے عالم غیب سے معلوم ہوا ہے کہ پانچویں صدی کے وسط میں سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی اولاد اطہار میں سے ایک قطب عالم ہوگا، جن کا لقب محی الدین اور اسم مبارک سید عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ہے اور وہ غوث اعظم ہوگا اور جیلان میں پیدائش ہوگی ان کو خاتم النبیین، رحمۃ للعلمین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی اولاد اطہار میں سے ائمہ کرام اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے علاوہ اولین و آخرین کے “ہر ولی اور ولیہ کی گردن پر میرا قدم ہے۔“ کہنے کا حکم ہو گا۔“ (سیرت غوث الثقلین، ص57)

 

(5) شیخ ابوبکر علیہ الرحمۃ کی بشارت:

شیخ ابوبکر بن ہوارا رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ایک روز اپنے مریدین سے فرمایا کہ “عنقریب عراق میں ایک عجمی شخص جو کہ اللہ عزوجل اور لوگوں کے نزدیک عالی مرتبت ہو گا اس کا نام عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ہو گا اور بغداد شریف میں سکونت اختیار کرے گا، قدمی ھذہ علی رقبہ کل ولی اللہ (یعنی میرا یہ قدم ہر ولی کی گردن پر ہے) کا اعلان فرمائے گا اور زمانہ کے تمام اولیاء کرام رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین اس کے فرمانبردار ہوں گے۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکر اخبار المشایخ عنہ بذالک، ص14)

 

وقت ولادت کرامت کا ظہور

 

آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی ولادت ماہ رمضان المبارک میں ہوئی اور پہلے دن ہی سے روزہ رکھا۔ سحری سے لے کر افطاری تک آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنی والدہ محترمہ کا دودھ پیتے تھے، چنانچہ سیدنا غوث الثقلین شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی والدہ ماجدہ فرماتی ہیں کہ “جب میرا فرزند ارجمند عبدالقادر پیدا ہوا تو رمضان شریف میں دن بھر دودھ نہ پیتا تھا۔“ (بہجۃ الاسرار و معدن الانوار، ذکر نسبہ و صفتہ رضی اللہ تعالٰی عنہ، ص172)

غوث اعظم متقی ہر آن میں

چھوڑا ماں کا دودھ بھی رمضان میں

 

 

آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے بچپن کی برکتیں

 

آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی والدہ ماجدہ حضرت سیدتنا ام الخیر فاطمہ بنت عبداللہ صومعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما فرمایا کرتی تھیں “جب میں نے اپنے صاحبزادے عبدالقادر کو جنا تو وہ رمضان المبارک میں دن کے وقت میرا دودھ نہیں پیتا تھا اگلے سال رمضان کا چاند غبار کی وجہ سے نظر نہ آیا تو لوگ میرے پاس دریافت کرنے کے لئے آئے تو میں نے کہا کہ “میرے بچے نے دودھ نہیں پیا۔“ پھر معلوم ہوا کہ آج رمضان کا دن ہے اور ہمارے شہر میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ سیدوں میں ایک بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان المبارک میں دن کے وقت دودھ نہیں پیتا۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکر نسبہ و صفتہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ، ص172)

 

آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا حلیہ مبارک

 

حضرت شیخ ابو محمد عبداللہ بن احمد بن قدامہ مقدسی فرماتے ہیں کہ ہمارے امام شیخ الاسلام محی الدین سید عبدالقادر جیلانی، قطب ربانی، غوث صمدانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ضعیف البدن، میانہ قد، فراخ سینہ، چوڑی داڑھی اور دراز گردن، رنگ گندمی، ملے ہوئے ابرو، سیاہ آنکھیں، بلند آواز اور وافر علم و فضل تھے۔ (بہجۃ الاسرار، ذکر نسبہ و صفتہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ، ص 174)

 

آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی زیارت کی برکتیں

 

شیخ ابو عبداللہ محمد بن علی سنجاری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے والد فرماتے ہیں کہ “حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی، غوث صمدانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ دنیا کے سرداروں میں سے منفرد ہیں، اولیاء اللہ میں سے ایک فرد ہیں، اللہ عزوجل کی طرف سے مخلوق کے لئے ہدیہ ہیں، وہ شخص نہایت نیک بخت ہے جس نے آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو دیکھا، وہ شخص ہمیشہ شاور ہے جس نے آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی صحبت اختیار کی، وہ شخص ہمیشہ خوش رہے جس نے حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے دل میں رات بسر کی۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکر احترام المشایخ و العلماءلہ و ثنائہم علیہ، ص432)

 

آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بچپن ہی میں راہ خدا عزوجل کے مسافر بن گئے

 

شیخ محمد بن قائد الاوانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بیان کرتے ہیں کہ “حضرت محبوب سبحانی غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ہم سے فرمایا کہ “حج کے دن بچپن میں مجھے ایک مرتبہ جنگل کی طرف جانے کا اتفاق ہوا اور میں ایک بیل کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا کہ اس بیل نے میری طرف دیکھ کر کہا: “یا عبدالقادر ما لھذا خلقت یعنی اے عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ! تم کو اس قسم کے کاموں کے لئے تو پیدا نہیں کیا گیا۔“ میں گھبرا کر گھر لوٹا اور اپنے گھر کی چھت پر چڑھ گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میدان عرفات میں لوگ کھڑے ہیں، اس کے بعد میں نے اپنی والدہ ماجدہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا: “آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مجھے راہ خدا عزوجل میں وقف فرما دیں اور مجھے بغداد جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں تاکہ میں وہاں جاکر علم دین حاصل کروں۔“ والدہ ماجدہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہا نے مجھ سے اس کا سبب دریافت کیا میں نے بیل والا واقعہ عرض کردیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہا کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ 80 دینار جو میرے والد ماجد کی وراثت تھے میرے پاس لے آئیں تو میں نے ان میں سے 40 دینار لے لئے اور 40 دینار اپنے بھائی سید ابو احمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے لئے چھوڑ دئیے، والدہ ماجدہ نے میرے چالیس دینار میری گدڑی میں سی دئیے اور مجھے بغداد جانے کی اجازت عنایت فرما دی۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہا نے مجھے ہر حال میں راست گوئی اور سچائی کو اپنانے کی تاکید فرمائی اور جیلان کے باہر تک مجھے الوادع کہنے کے لئے تشریف لائیں اور فرمایا: “اے میرے پیارے بیٹے! میں تجھے اللہ عزوجل کی رضا اور خوشنودی کی خاطر اپنے پاس سے جدا کرتی ہوں اور اب مجھے تمہارا منہ قیامت کو ہی دیکھنا نصیب ہو گا۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکر طریقہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ، ص167)

کرامات غوث اعظم رضی اللہ عنہ

کرامات غوث اعظم رضی اللہ عنہ تحریر پیرمحمدامیرسلطان قادری چشتی آف اوگالی شریف خوشاب

خانقاہ میں ایک باپردہ خاتون اپنے منے کی لاش چادر میں لپٹائے، سینے سے چمٹائے زار و قطار رو رہی تھی۔ اتنے میں ایک “مدنی منا“ دوڑتا ہوا آتا ہے اور ہمدردانہ لہجے میں اس خاتوں سے رونے کا سبب دریافت کرتا ہے۔ وہ روتے ہوئے کہتی ہے، بیٹا! میرا شوہر اپنے لخت جگر کے دیدار کی حسرت لئے دنیا سے رخصت ہو گیا ہے۔ یہ بچہ اس وقت پیٹ میں تھا اور اب یہی اپنے باپ کی نشانی اور میری زندگانی کا سرمایہ تھا، یہ بیمار ہو گیا، میں اسے اس خانقاہ میں دم کروانے لا رہی تھی کہ راستے میں اس نے دم توڑ دیا ہے۔ میں پھر بھی بڑی امید لے کر یہاں حاضر ہو گئی کہ اس خانقاہ والے بزرگ کی ولایت کی ہر طرف دھوم ہے اور ان کی نگاہ کرم سے اب بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے مگر وہ مجھے صبر کی تلقین کرکے اندر تشریف لے جا چکے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ خاتون پھر رونے لگی۔ “مدنی منے کا دل پگھل گیا اور اس کی رحمت بھری زبان پر یہ الفاظ کھیلنے لگے، محترمہ ! آپ کا منا مرا ہوا نہیں بلکہ زندہ ہے، دیکھو تو سہی وہ حرکت کر رہا ہے!“ دکھیاری ماں نے بے تابی کے ساتھ اپنے منے کی لاش پر سے کپڑا اٹھا کر دیکھا تو وہ سچ مچ زندہ تھا اور ہاتھ پیر ہلا کر کھیل رہا تھا۔ اتنے میں خانقاہ والے بزرگ اندر سے واپش تشریف لائے، بچے کو زندہ دیکھ کر ساری بات سمجھ گئے اور لاٹھی اٹھا کر یہ کہتے ہوئے “مدنی منے“ کی طرف لپکے کہ تونے ابھی سے تقدیر خداوندی عزوجل کے سربستہ راز کھولنے شروع کر دئیے ہیں! “مدنی منا“ وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا اور وہ بزرگ اس کے پیچھے دوڑنے لگے۔ “مدنی منا“ یکایک قبرستان کی طرف مڑا اور بلند آواز سے پکارنے لگا، اے قبر والو ! مجھے بچاؤ! تیزی سے لپکتے ہوئے بزرگ اچانک ٹھٹھک کر رک گئے کیونکہ قبرستان سے تین سو (300) مردے اٹھ کر اسی “مدنے منے“ کی ڈھال بن چکے تھے اور وہ “مدنی منا“ دور کھڑا اپنا چاند سا چہرہ چمکاتا مسکرا رہا تھا۔ اس بزرگ نے بڑی حسرت کے ساتھ “مدنی منے“ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، بیٹا ! ہم تیرے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتے۔ اس لئے تیری مرضی کے آگے اپنا سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں وہ “مدنی منا“ کون تھا ؟ اس مدنی منے کا نام عبدالقادر تھا اور آگے چلکر وہ غوث الاعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرام کے لقب سے مشہور ہوئے اور وہ بزرگ ان کے ناناجان حضرت سیدنا عبداللہ صومعی علیہ رحمۃ اللہ القوی تھے۔ (الحقائق فی الحدائق)

بچپن کی چند کرامات

غوث الاعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرام مادر زاد ولی تھے۔

(1) آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ابھی اپنی ماں کے پیٹ میں تھے اور ماں کو جب چھینک آتی اور اس پر وہ الحمدللہ کہتیں تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ پیٹ ہی میں جواباً یرحمک اللہ کہتے

(2) آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ یکم رمضان المبارک بروز پیر صبح صادق کے وقت دنیا میں جلوہ گر ہوئے اس وقت ہونٹ آہستہ آہستہ حرکت کر رہے تھے اور اللہ، اللہ کی آواز آرہی تھی

(3) جس دن آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی ولادت ہوئی اس دن آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے دیار ولادت جیلان شریف میں گیارہ سو بچے پیدا ہوئے وہ سب کے سب لڑکے تھے اور سب ولی اللہ بنے۔

(4) غوث الاعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرام نے پیدا ہوتے ہی روزہ رکھ لیا اور جب سورج غروب ہوا اس وقت ماں کا دودھ نوش فرمایا۔ سارا مہینہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا یہی معمول رہا

(5) پانچ برس کی عمر میں جب پہلی بار بسم اللہ پڑھنے کی رسم کیلئے کسی بزرگ کے پاس بیٹھے تو اعوذ اور بسم اللہ پڑھ کر سورہء فاتحہ اور آلم سے لے کر اٹھارہ پارے روشن پڑھ کر سنا دئیے۔ اس بزرگ نے کہا، بیٹے اور پڑھئے! فرمایا، بس مجھے اتنا ہی یاد ہے کیونکہ میری ماں کو بھی اتنا ہی یاد تھا۔ جب میں اپنی ماں کے پیٹ میں تھا اس وقت وہ پڑھا کرتی تھیں۔ میں نے سن کر یاد کر لیا تھا

(6) جب آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ لڑکپن میں کھیلنے کا ارادہ فرماتے، غیب سے آواز آتی، اے عبدالقادر (رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ)! ہم نے تجھے کھیلنے کے واسطے نہیں پیدا کیا

(7) آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مدرسہ میں تشریف لے جاتے تو آواز آتی، “اللہ عزوجل کے ولی کو جگہ دے دو۔“ (کتب کثیرہ)

کرامت کی تعریف

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! بعض اوقات آدمی کرامات اولیاء کے معاملے میں شیطان کے وسوسے میں آکر کرامات کو عقل کے ترازو میں تولنے لگتا ہے اور یوں گمراہ ہو جاتا ہے۔ یاد رکھئے! کرامت کہتے ہی اس خرق عادت بات کو جو عقلاً محال یعنی ظاہری اسباب کے ذریعہ اس کا صدور ناممکن ہو مگر اللہ عزوجل کی عطا سے اولیائے کرام رحمہم اللہ تعالٰی سے ایسی باتیں بسا اوقات صادر ہو جاتی ہیں۔ نبی سے قبل از اعلان نبوت ایسی چیزیں ظاہر ہوں تو ان کو ارہاص کہتے ہیں۔ اور اعلان نبوت کے بعد صادر ہوں تو معجزہ کہتے ہیں۔ عام مومنین سے اگر ایسی چیزیں ظاہر ہوں تو اسمیعونت اور ولی سے ظاہر ہوں تو کرامت کہتے ہیں۔ نیز کافر یا فاسق سے کوئی خرق عادت ظاہر ہو تو اسے استدراج (اس۔ تد۔ راج) کہتے ہیں۔ (النبراس، ص272 ملخصاً، طبعۃ ملتان)

ڈوبی ہوئی بارات

ایک بار سرکار بغداد حضور سیدنا غوث الاعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم دریا کی طرف تشریف لے گئے۔ وہاں ایک نوے سال کی بڑھیا کو دیکھا جو زار و قطار رو رہی تھی۔ ایک مرید نے بارگاہ غوثیت میں عرض کی، یامرشدی! اس ضعیفہ کا ایک اکلوتا خوبرو بیٹا تھا۔ بے چاری نے اس کی شادی رچائی دولہا نکاح کرکے دلہن کو اسی دریا میں کشتی کے ذریعہ اپنے گھر لا رہا تھا کہ کشتی الٹ گئی اور دولہا دلہن سمیت بارات ڈوب گئی۔ اس واقعہ کو آج بارہ برس گزر چکے ہیں مگر ماں کا جگر ہے، بے چاری کا غم جاتا نہیں ہے، یہ روزانہ یہاں دریا پر آتی ہے اور بارات کو نہ پاکر رو دھو کر چلی جاتی ہے۔ حضور غوث الاعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کو اس ضعیفہ پر بڑا ترس آیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعاء کے لئے ہاتھ اٹھا دئیے۔ چند منٹ تک کچھ بھی ظہور نہ ہوا۔ بے تاب ہو کر بارگاہ الٰہی عزوجل میں عرض کی، یااللہ عزوجل ! اس قدر تاخیر کیوں ؟ ارشاد ہوا، اے میرے پیارے ! یہ تاخیر خلاف تقدیر و تدبیر نہیں ہے، ہم چاہتے تو ایک حکم کن سے تمام زمین و آسمان پیدا کر دیتے مگر بتقضائے حکمت چھ دن میں پیدا کئے، بارات کو ڈوبے بارہ سال بیت چکے ہیں، اب نہ وہ کشتی باقی رہی ہے نہ ہی اس کی کوئی سواری، تمام انسانوں کا گوشت وغیرہ بھی دریائی جانور کھا چکے ہیں، ریزہ ریزہ کو اجزائے جسم میں اکٹھا کروا کر دوبارہ زندگی کے مرحلے میں داخل کر دیا ہے، اب ان کی آمد کا وقت ہے۔ ابھی یہ کلام اختتام کو بھی نہ پہنچا تھا کہ یکایک وہ کشتی اپنے تمام ساز و سامان کے ساتھ بمع دولہا دلہن و براتی سطح آپ پر نمودار ہوگئی اور چند ہی لمحوں میں کنارے آلگی۔ تمام باراتی سرکار بغداد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے دعائیں لے کر خوشی خوشی اپنے گھر پہنچے۔ اس کرامت کو سن کر بے شمار کفار نے آ آ کر سیدنا غوث الاعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کے دست حق پرست پر اسلام قبول کیا۔ (سلطان الاذ کارفی مناقب غوث الابرار)

کیا بندہ مردہ زندہ کر سکتا ہے ؟

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! بے شک موت و حیات اللہ عزوجل کے اختیار میں ہے لیکن اللہ عزوجل اپنے کسی بندے کو مردے جلانے کی طاقت بخشے تو اس کے لئے کوئی مشکل بات نہیں ہے اور اللہ عزوجل کی عطا سے کسی اور کو ہم مردہ زندہ کرنے والا تسلیم کریں تو اس سے ہمارے ایمان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اگر شیطان کی باتوں میں آکر کسی نے اپنے ذہن میں یہ بٹھا لیا ہے کہ اللہ عزوجل نے کسی اور کو مردہ زندہ کرنے کی طاقت ہی نہیں دی تو اس کا یہ نظریہ یقیناً حکم قرآنی کے خلاف ہے۔ دیکھئے! قرآن پاک حضرت سیدنا عیسٰی روح اللہ علٰی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے مریضوں کو شفاء دینے اور مردے زندہ کرنے کی طاقت کا صاف صاف اعلان کر رہا ہے جیسا کہ (پارہ 30، سورہء ال عمران کی آیت نمبر49) میں حضرت سدینا عیسٰی روح اللہ علٰی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے

وابری الاکمہ والابرص واحی الموتی باذن اللہ ج (پ3، ال عمران: 49)

ترجمہء کنزالایمان: اور میں شفاء دیتا ہوں مادر زادھوں اور سفید داغ والے (یعنی کوڑھی) کو اور میں مردے چلاتا ہوں اللہ (عزوجل) کے حکم سے

امید ہے کہ شیطان کا ڈالا ہوا وسوسہ جڑ سے کٹ گیا ہوگا، کیونکہ مسلمان کا قرآن پاک پر ایمان ہوتا ہے اور وہ حکم قرآن کے خلاف کوئی دلیل تسلیم کرتا ہی نہیں۔ بہرحال اللہ عزوجل اپنے مقبول بندوں کو طرح طرح کے اختیارات سے نوازتا ہے اور ان سے ایسی باتیں صادر ہوتی ہیں جو عقلی انسانی کی بلندیوں سے وراء الورا ہوتی ہیں۔ یقیناً اہل اللہ کے تصرفات و اختیارات کی بلندی کو دنیا والوں کی پرواز عقل چھو بھی نہیں سکتی۔

سائنسدان کی نظر

دور حاضر کا سب سے بڑا سائنسدان آئن اسٹائن کہہ گیا ہے، “میں نے ریڈیو، دوربین کے ذریعہ ایک ایسا کہکشاں تو دیکھ لیا ہے جو زمین سے دو کروڑ نوری سال دور ہے یعنی روشنی جو فی سیکنڈ ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل طے کرتی ہے وہاں دو کروڑ سال میں پہنچے گی مگر جہاں تک کائنات کی سرحدیں معلوم کرنے کا تعلق ہے اگر میری عمر ایک ملین یعنی دس لاکھ برس بھی ہو جائے تب بھی دریافت نہیں کر سکتا۔“

سائنسدان کے برعکس خدائے رحمٰن عزوجل کے ولی حضور غوث اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کی نظر کی عظمت وشان دیکھئے آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں :-

نظرت الٰی بلاد اللہ جمعا

کخردلۃ علٰی حکم التصال

یعنی اللہ عزوجل کے تمام شہر میری نظر میں اس طرح ہیں جیسے ہتھیلی میں رائی کا دانہ۔

میرے آقا اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بارگاہ غوثیت مآب میں عرض کرتے ہیں

بد عقیدہ قاتل کی سزا

اب وصال شریف کے طویل عرصے کے بعد ہندوستان میں رونما ہونے والا ایک ایمان افروز واقعہ پڑھئے اور جھومئے۔ رنجیت سنگھ کے دور حکومت کا واقعہ ہے، ایک نام نہاد مسلمان جوکر کرامات اولیاء کا منکر تھا شومئی قسمت سے ایک شادی شدہ ہندوانی کو دل سے بیٹھا۔ ایک بار ہندو اپنی بیوی کو میکے پہنچانے کے لئے گھر سے باہر نکلا ادھر سے بدبخت عاشق پر شہوت نے غلبہ کیا۔ چنانچہ اس نے ان کا پیچھا کیا اور ایک سنسان مقام پر اس نے دونوں کو گھیر لیا، وہ دونوں پیدل تھے اور یہ گھوڑے پر سوار تھے۔ اس نے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے سواری کی پیشکش کی مگر ہندو نے انکار کیا، وہ اصرار کرنے لگا کہ اچھا عورت ہی کو پیچھے بیٹھنے کی اجازت دے دو کہ یہ بے چاری تھک جائے گی۔ ہندو کو اس کی نیت پر شبہ ہو چلا تھا، لٰہذا اس نے کہا، تم ضمانت دو کہ کسی قسم کی خیانت کئے بغیر میری بیوی کو منزل پر پہنچا دو گے۔ اس نے کہا کہ یہاں جنگل میں ضامن کہاں سے لاؤں ؟ عورت بول اٹھی، “مسلمان گیارہوں والے بڑے پیرصاحب کو بہت مانتے ہیں تم انہیں کی ضمانت دے دو۔“ وہ اگرچہ غوث الاعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کے تصرفات کا قائل نہیں تھا مگر یہ سوچ کر کہ ہاں کہہ دینے میں کیا جاتا ہے اس نے ہاں کہہ دی۔ جوں ہی عورت گھوڑے پر سوار ہوئی اس ظالم نے تلوار سے اس کے شوہر کی گردن اڑا دی اور گھوڑے کو ایڑھ لگادی۔ عورت غم سے نڈھال اور سہمی ہوئی بار بار مڑ کر پیچھے دیکھے جارہی تھی۔ اس نے کہا کہ بار بار پیچھے دیکھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، تمھارا شوہر اب واپس نہیں آسکتا۔ اس نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا، میں تو بڑے پیرصاحب کو دیکھ رہی ہوں۔ اس پر اس نے ایک قہقہہ لگاکر کہا کہ بڑے پیرصاحب کو تو فوت ہوئے سو سال گزر چکے ہیں اب بھلا سو سال گزر چکے ہیں اب بھلا وہ کہاں سے آسکتے ہیں ! اتنا کہنا تھا کہ اچانک دو بزرگ نمودار ہوئے ان میں سے ایک نے بڑھ کر تلوار سے اس بدعقیدہ عاشق کا سر اڑا دیا۔ پھر عورت کو بمع گھوڑا اس جگہ لائے جہاں وہ ہندو کٹا ہوا پڑا تھا۔ دونوں میں سے ایک بزرگ نے کٹا ہوا سر دھڑ سے ملاکر کہا، “قم باذن اللہ“ یعنی اٹھ اللہ (عزوجل) کے حکم سے۔ وہ ہندو اسی وقت زندہ ہوگیا۔ وہ دونوں بزرگ غائب ہوگئے۔ یہ دونوں میاں بیوی گھوڑے پر سوار ہوکر بخیریت گھر لوٹ آئے۔ مقتول کے وارثوں نے گھوڑا پہچان کر رنجیت سنگھ کی کورٹ میں دونوں میاں بیوی پر کیس کردیا کہ ہمارا آدمی غائب ہے اور گھوڑا ان کے پاس ہے شاید ان لوگوں نے ہمارے آدمی کو قتل کر دیا ہے۔ پیشی ہوئی، ان میاں بیوی نے جنگل کا سارا واقعہ کہہ سنایا اور کہا کہ ان دونوں بزرگوں میں سے ایک بزرگ یہاں کے مشہور مجذوب گل محمد شاہ صاحب کے ہمشکل تھے۔ چنانچہ ان مجذوب بزرگ کو بلوایا گیا۔ وہ تشریف لے آئے اور انھوں نے آتے ہی اول تا آخر سارا واقعہ لفظ بہ لفظ بیان کردیا۔ لوگ حضور غوث اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کی یہ زندہ کرامت سنکر عش عش کر اٹھے۔ رنجیت سنگھ نے مقدمہ خارج کرتے ہوئے ان دونوں میاں بیوی کو انعام و اکرام دے کر رخصت کیا۔ (الحقائق فی الحدائق)

غوث الاعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کا کنواں

ایک بار بغداد معلٰی میں طاعون کی بیماری پھیل گئی اور لوگ دھڑا دھڑ مرنے لگے۔ لوگوں نے آپ کی خدمت میں اس مصیبت سے نجات دلانے کی درخواست پیش کی۔ آپ نے ارشاد فرمایا، “ہمارے مدرسہ کے اردگرد جو گھاس ہے وہ کھاؤ اور ہمارے مدرسے کے کنویں کا پانی پیو۔ جو ایسا کرے گا انشاءاللہ عزوجل ہر مرض سے شفاء پائے گا۔“ چنانچہ گھاس اور کنویں کے پانی سے شفاء ملنی شروع ہوگئی۔ یہاں تک کہ بغداد شریف سے طاعون ایسا بھاگا کہ پھر کبھی پلٹ کر نہ آیا۔ (تفریح الخاطر، ص34۔ 35 مصر)

“طبقات الکبرٰی“ میں غوث اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کا یہ ارشاد بھی نقل کیا گیا ہے، جس مسلمان کا میرے مدرسے سے گزر ہوا قیامت کے روز اس کے عذاب میں تخفیف ہوگی۔ (طبقات الکبرٰی، ج1، ص179)

ستر بار احتلام

حضرت سیدنا غوث اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کا ایک مرید ایک ہی رات میں نئی نئی عورت کے سبب ستر بار محتلم ہوا۔ صبح غسل سے فارغ ہوکر اپنی پریشانی کی فریاد لیکر اپنے مرشد کریم حضور غوث اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کی خدمت باعظمت میں حاضر ہوا۔ قبل اس کے کہ وہ کچھ عرض کرے۔ سرکار بغداد حضور غوث اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم نے خود ہی فرمایا، رات کے واقعہ سے مت گھبراؤ میں نے رات لوح محفوظ پر نظر ڈالی تو تمہارے بارے میں ستر مختلف عورتوں کے ساتھ زنا کرنا مقدر تھا۔ میں نے بارگاہ الٰہی عزوجل میں التجا کی کہ وہ تیری تقدیر کو بدل دے اور ان گناہوں سے تیری حفاظت فرمائے۔ چنانچہ ان سارے واقعات کو خواب میں احتلام کی صورت میں تبدیل کر دیا گیا۔ (بہجۃ الاسرار و معدن الانوار، ص193)

 

ارشادات غوث اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم

اس سے معلوم ہوا کہ کسی پیر کامل کی بیعت ضرور کرنی چاہئیے کہ پیر کی توجہ سے مصیبتیں ٹل جاتی ہیں اور بعض اوقات بڑی آفت چھوٹی آفت سے بدل کر رہ جاتی ہے۔ بہجۃ الاسرار میں ہے، پیروں کے پیر،پیر دستگیر، روشن ضمیر، قطب ربانی، محبوب سبحانی، پیر لاثانی، قندیل نورانی، شہباز لامکانی، الشیخ ابو محمد سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ الربانی کا فرمان بشارت نشان ہے، مجھے ایک بہت بڑا رجسٹر دیا گیا جس میں میرے مصاحبوں اور میرے قیامت تک ہونے والے مریدوں کے نام درج تھے اور کہا گیا کہ یہ سارے افراد تمہارے حوالے کر دئیے گئے ہیں۔ فرماتے ہیں، میں نے داروغہء جہنم سے استفسار کیا، کیا جہنم میں میرا کوئی مرید بھی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا، “نہیں۔“ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے مذید فرمایا، مجھے اپنے پروردگار کی عزت جلال کی قسم ! میرا دست حمایت میرے مرید پر اس طرح ہے جس طرح آسمان زمین پر سایہ کناں ہے۔ اگر میرا مرید اچھا نہ بھی ہو تو کیا ہوا۔ الحمدللہ عزوجل میں تو اچھا ہوں۔ مجھے اپنے پالنے والے کی عزت جلال کی قسم ! میں اس وقت تک اپنے رب عزوجل کی بارگاہ سے نہ ہٹوں گا جب تک اپنے ایک ایک مرید کو داخل جنت نہ کروالوں۔ (ایضاً)

عظیم الشان کرامت

ابوالمظفر حسن نامی ایک تاجر نے حضرت سیدنا شیخ حمّاد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کی، حضور ! میں تجارت کیلئے قافلہ کے ہمراہ ملک شام جا رہا ہوں۔ آپ سے دعاء کی درخواست ہے۔ سیدنا شیخ حمّاد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا، “تم اپنا سفر ملتوی کردو، اگر گئے تو ڈاکو تمہارا سارا مال بھی لوٹ لیں گے اور تمہیں بھی قتل کر ڈالیں گے۔“ تاجر یہ سن کر بڑا پریشان ہوا، اسی پریشانی کے عالم میں واپس آ رہا تھا کہ راستے میں حضور غوث اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم مل گئے۔ پوچھا، کیوں پریشان ہو ؟ اس نے سارا واقعہ کہہ سنایا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا، پریشان نہ ہو شوق سے ملک شام کا سفر کرو۔ انشاءاللہ عزوجل سب بہتر ہو جائے گا۔ چنانچہ وہ قافلے کے ساتھ روانہ ہو گیا۔ اسے کاروبار میں بہت نفع ہوا۔ وہ ایک ہزار (1000) اشرفیوں کی تھیلی لئے حلب پہنچا۔ اتفاقاً وہ اشرفیوں کی تھیلی کہیں رکھ کر بھول گیا، اسی فکر میں نیند نے غلبہ کیا اور سو گیا، نیند میں اس نے ایک ڈراؤنا خواب دیکھا کہ ڈاکوؤں نے قافلے پر حملہ کرکے سارا مال لوٹ لیا ہے اور اسے بھی قتل کر ڈالا ہے۔ خوف کے مارے اس کی آنکھ کھل گئی۔ گھبرا کر اٹھا تو وہاں کوئی ڈاکو وغیرہ نہ تھا۔ اب اسے یاد آیا کہ اشرفیوں کی تھیلی اس نے فلاں جگہ رکھی ہے۔ جھٹ وہاں پہنچا تو تھیلی مل گئی۔ خوشی خوشی بغداد شریف واپس آیا۔ اب سوچنے لگا کہ پہلے غوث الاعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم سے ملوں یاشیخ حمّاد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے ؟ اتفاقاً راستے میں ہی سیدنا شیخ حمّاد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مل گئے اور دیکھتے ہی فرمانے لگے، پہلے جاکر غوث اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم سے ملو کہ وہ محبوب ربانی ہیں، انہوں نے تمہارے حق میں ستر بار دعاء مانگی تھی تب کہیں جاکر تمہاری تقدیر بدلی جس کی میں نے خبر دی تھی۔ اللہ عزوجل نے تمہارے ساتھ ہونے والے واقعہ کو غوث اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کی دعاء کی برکت سے بیداری سے خواب میں منتقل کر دیا۔ چنانچہ وہ بارگاہ غوثیت مآب میں حاضر ہوا۔ غوث اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم نے دیکھتے ہی فرمایا، “واقعی میں نے تمہارے لئے ستر مرتبہ دعاء مانگی تھی۔“ (بہجۃ الاسرار و معدن الانوار، ص64)

عذاب قبر سے رہائی

ایک غمگین نوجوان نے آکر بارگاہ غوثیت میں فریاد کی، حضور ! میں نے اپنے والد مرحوم کو رات خواب میں دیکھا، وہ کہہ رہے تھے، “بیٹا ! میں عذاب قبر میں مبتلا ہوں، تو سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کی بارگاہ میں حاضر ہوکر میرے لئے دعاء کی درخواست کر۔“ یہ سن کر سرکار بغداد حضور غوث اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم نے استفسار فرمایا، کیا تمہارے اباجان میرے مدرسے سے کبھی گزرے ہیں ؟ اس نے عرض کی، جی ہاں۔ بس آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ خاموش ہو گئے۔ وہ نوجوان چلا گیا۔ دوسرے روز خوش خوش حاضر خدمت ہوا اور کہنے لگا، یامرشد ! آج رات والد مرحوم سبز حلہ (یعنی سبز لباس) زیب تن کئے خواب میں تشریف لائے وہ بے حد خوش تھے، کہہ رہے تھے، بیٹا ! سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ الربانی کی برکت سے مجھ سے عذاب دور کر دیا گیا ہے اور یہ سبز حلّہ بھی ملا ہے۔ میرے پیارے بیٹے ! تو ان کی خدمت میں رہا کر۔“ یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا، میرے رب عزوجل نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ جو مسلمان تیرے مدرسے سے گزرے گا اس کے عذاب میں تخفیف کی جائے گی۔ (ایضاً، ص194)

مردے کی چیخ و پکار

ایک بار بارگاہ غوثیت مآب میں حاضر ہو کر لوگوں نے عرض کی، عالی جاہ ! “باب الازج“ کے قبرستان میں ایک قبر سے مردے کی چیخنے کی آوازیں آرہی ہیں۔ حضور ! کچھ کرم فرما دیجئے کہ بے چارے کا عذاب دور ہو جائے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا، کیا اس نے مجھ سے خرقہء خلافت پہنا ہے ؟ لوگوں نے عرض کی، ہمیں معلوم نہیں۔ فرمایا، کیا کبھی وہ میری مجلس میں حاضر ہوا ؟ لوگوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ فرمایا، کیا اس نے کبھی میرا کھانا کھایا ؟ لوگوں نے پھر لا علمی کا اظہار کیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے پوچھا، کیا اس نے کبھی میرے پیچھے نماز ادا کی ؟ لوگوں نے وہی جواب دیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ذرا سا سر اقدس جھکایا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ پر جلال و وقار کے آثار ظاہر ہوئے۔ کچھ دیر کے بعد فرمایا، مجھے ابھی ابھی فرشتوں نے بتایا، “اس نے آپ کی زیارت کی ہے اور آپ سے اسے عقیدت بھی تھی لٰہذا اللہ تبارک و تعالٰی نے اس پر رحم کیا۔“ الحمدللہ عزوجل اس کی قبر سے آوازیں آنی بند ہو گئیں۔ (بہجۃ الاسرار و معدن الانوار، ص194، دارالکتب العلمیۃ بیروت)

سرکار غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حالات و واقعات حصہ چہارم

ریاؤں پر آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی حکومت

ایک دفعہ دریائے دجلہ میں زوردار سیلاب آگیا، دریا کی طغیانی کی شدت کی وجہ سے لوگ ہراساں اور پریشاں ہوگئے اور حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے مدد طلب کرنے لگے حضرت نے اپنا عصاء مبارک پکڑا اور دریا کی طرف چل پڑے اور دریا کے کنارے پر پہنچ کر آپ نے عصاء مبارک کو دریا کی اصلی حد پر نصب کردیا اور دریا کو فرمایا کہ “بس یہیں تک۔“ آپ کا فرمانا ہی تھا کہ اسی وقت پانی کم ہونا شروع ہو گیا اور آپ کے عصاء مبارک تک آگیا۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکر فصول من کلامہ مرصعابشی من عجائب، ص 153)
بچایا تھے پہلے تو ڈوبے ہوؤں کو
اور اب ڈوبتو کو بچا غوث اعظم

اولاد نرینہ نصیب ہو گئی

حضرت شاہ ابو المعالی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تحریر فرماتے ہیں ایک شخص نے حضرت سیدنا غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوکر عرض کیا: “آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے اس دربار میں حاجتیں پوری ہوتی ہیں اور یہ نجات پانے کی جگہ ہے پس میں اس بارگاہ میں ایک لڑکا طلب کرنے کی التجا کرتا ہوں۔“ تو سرکار بغداد، حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا: “میں نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعاء کر دی ہے کہ اللہ عزوجل تجھے وہ عطا فرمائے جو تو چاہتا ہے۔“
وہ آدمی روزانہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی مجلس شریف میں حاضر ہونے لگا، قادر مطلق کے حکم سے اس کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی، وہ شخص لڑکی کو لے کر خدمت اقدس میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگا: “حضور والا (رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ)! ہم نے تو لڑکے کے متعلق عرض کیا تھا اور یہ لڑکی ہے۔“ تو حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا: “اس کو لپیٹ کر اپنے گھر لے جاؤ اور پھر پردہ غیب سے قدرت کا کرشمہ دیکھو۔“ تو وہ حسب ارشاد اس کو لپیٹ کر گھر لے آیا اور دیکھا تو قدرت الٰہی عزوجل سے بجائے لڑکی کے لڑکا پایا۔“ ( تفریح الخاطر، ص 18 )
آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی دعاء کی تاثیر

ابو السعود الحریمی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے مروی ہے کہ ابو المظفر حسن بن نجم تاجر نے شیخ حماد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: “حضور والا ! میرا ملک شام کی طرف سفر کرنے کا ارادہ ہے اور میرا قافلہ بھی تیار ہے، سات سو دینار کا مال تجارت ہمراہ لے جاؤں گا۔“ تو شیخ حماد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: “اگر تم اس سال سفر کرو گے تو تم سفر میں ہی قتل کر دئیے جاؤ گے اور تمہارا مال و اسباب لوٹ لیا جائے گا۔“
وہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا ارشاد سن کر مغموم حالت میں باہر نکلا تو حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے ملاقات ہوگئی اس نے شیخ حماد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا ارشاد سنایا تو آپ نے فرمایا اگر تم سفر کرنا چاہتے ہو تو جاؤ تم اپنے سفر سے صحیح و تندرست واپس آؤ گے، میں اس کا ضامن ہوں۔“ آپ کی بشارت سن کر وہ تاجر سفر پر چلا گیا اور ملک شام میں جاکر ایک ہزار دینار کا اس نے اپنا مال فروخت کیا اس کے بعد وہ تاجر اپنے کسی کام کے لئے حلب چلا گیا، وہاں ایک مقام پر اس نے اپنے ہزار دینار رکھ دئیے اور رکھ کر بھول گیا اور حلب میں اپنی قیام گاہ پر آگیا، نیند کا غلبہ تھا کہ آتے ہی سو گیا، خواب میں کیا دیکھتا ہے کہ عرب بدوؤں نے اس کا قافلہ لوٹ لیا ہے اور قافلے کے کافی آدمیوں کو قتل بھی کر دیا ہے اور خود اس پر بھی حملہ کرکے اس کر مار ڈالا ہے، گھبرا کر بیدار ہوا تو اسے اپنے دینار یاد آگئے فوراً دوڑتا ہوا اس جگہ پر پہنچا تو دینار وہاں ویسے ہی پڑے ہوئے مل گئے، دینار لے کر اپنی قیام گاہ پر پہنچا اور واپسی کی تیاری کرکے بغداد لوٹ آیا۔
جب بغداد شریف پہنچا تو اس نے سوچا کہ پہلے حضرت شیخ حماد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں حاضر ہوں کہ وہ عمر میں بڑے ہیں یا حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں حاضر ہوں کہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے میرے سفر کے متعلق جو فرمایا تھا بالکل درست ہوا ہے اسی سوچ و بچار میں تھا کہ حسن اتفاق سے شاہی بازار میں حضرت شیخ حماد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے اس کی ملاقات ہوگئی تو آپ نے اس کو ارشاد فرمایا کہ “پہلے حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت اقدس میں حاضری دو کیونکہ وہ محبوب سبحانی ہیں انہوں نے تمہارے حق میں ستر (70) مرتبہ دعا مانگی ہے یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے تمہارے واقعہ کو بیداری سے خواب میں تبدیل فرمادیا اور مال کے ضائع ہونے کو بھول جانے سے بدل دیا۔ جب تاجر غوث الثقلین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ “جو کچھ شیخ حماد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے شاہی بازار میں تجھ سے بیان فرمایا ہے بالکل ٹھیک ہے کہ میں نے ستر (70) مرتبہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں تمہارے لئے دعا کی کہ وہ تمہارے قتل کے واقعہ کو بیداری سے خواب میں تبدیل فرمادے اور تمہارے مال کے ضائع ہونے کو صرف تھوڑی دیر کے لئے بھول جانے سے بدل دے۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکر فصول من کلامہ مرصعابشی من عجائب، ص 64)
بیداری میں نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی زیارت

ایک دن حضرت غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بیان فرما رہے تھے اور شیخ علی بن ہیتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کو نیند آگئی حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اہل مجلس سے فرمایا خاموش رہو اور آپ منبر سے نیچے اتر آئے اور شیخ علی بن ہیتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے سامنے باادب کھڑے ہوگئے اور ان کی طرف دیکھتے رہے۔
جب شیخ علی بن ہیتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ خواب سے بیدار ہوئے تو حضرت غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ان سے فرمایا کہ “آپ نے خواب میں تاجدار مدینہ، راحت قلب و سینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے ؟“ انہوں نے جواب دیا: “جی ہاں۔“ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: “میں اسی لئے باادب کھڑا ہو گیا تھا پھر آپ نے پوچھا کہ “نبی پاک، صاحب لالوک صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو کیا نصیحت فرمائی ؟“ تو کہا کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ “آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت اقدس میں حاضری کو لازم کر لو۔“
بعد ازیں لوگوں نے شیخ علی بن ہیتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے دریافت کیا کہ “حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے اس فرمان کا کیا مطلب تھا کہ “میں اسی لئے باادب کھڑا ہو گیا تھا۔“ تو شیخ علی بن ہیتی علیہ رحمۃ اللہ الباری نے فرمایا: “میں جو کچھ خواب میں دیکھ رہا تھا آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اس کو بیداری میں دیکھ رہے تھے۔“ ( بہجۃ الاسرار ذکر فصول من کلامہ مرصعا من عجائب، ص 58 )
ڈوبی ہوئی بارات

ایک بار سرکار بغداد حضور سیدنا غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ دریا کی طرف تشریف لے گئے وہاں ایک 90 سال کی بڑھیا کو دیکھا جو زار و قطار رو رہی تھی، ایک مرید نے بارگاہ غوثیت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ میں عرض کیا: “مرشدی! اس ضعیفہ کا اکلوتا خوبرو بیٹا تھا، بیچاری نے اس کی شادی رچائی دولہا نکاح کرکے دلہن کو اسی دریا میں کشتی کے ذریعے اپنے گھر لا رہا تھا کہ کشتی الٹ گئی اور دولہا دلہن سمیت ساری بارات ڈوب گئی، اس واقعہ کو آج بارہ سال گزر چکے ہیں مگر ماں کا جگر ہے، بے چاری کا غم جاتا نہیں ہے، یہ روزانہ یہاں دریا پر آتی ہے اور بارات کو نہ پاکر رو دھو کر چلی جاتی ہے۔“ حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو اس ضعیفہ پر بڑا ترس آیا، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھا دئیے، چند منٹ تک کچھ ظہور نہ ہوا، بے تاب ہو کر بارگاہ الٰہی عزوجل میں عرض کی: “یااللہ عزوجل ! اس قدر تاخیر کی کیا وجہ ہے ؟“ ارشاد ہوا: “اے میرے پیارے ! یہ تاخیر خلاف تقدیر نہیں ہے، ہم چاہتے تو ایک حکم “کن“ سے تمام زمین و آسمان پیدا کر دیتے مگر بتقضائے حکمت چھ دن میں پیدا کئے، بارات کو ڈوبے ہوئے بارہ سال ہو چکے ہیں، اب نہ وہ کشتی باقی رہی ہے نہ ہی اس کی کوئی سواری، تمام انسانوں کا گوشت وغیرہ بھی دریائی جانور کھا چکے ہیں، ریزہ ریزہ کو اجزائے جسم میں اکھٹا کروا کر دوبارہ زندگی کے مرحلے میں داخل کر دیا ہے اب ان کی آمد کا وقت ہے۔“ ابھی یہ کلام اختتام کو بھی نہ پہنچا تھا کہ یکایک وہ کشتی اپنے تمام تر ساز و سامان کے ساتھ بمع دولہا، دلہن وباراتی سطح آب پر نمودار ہوگئی اور چند ہی لمحوں میں کنارے پر آلگی، تمام باراتی سرکار بغداد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے دعائیں لے کر خوشی خوشی اپنے گھر پہنچے، اس کرامت کو سن کر بے شمار کفار نے آ آکر سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے دست حق پرست پر اسلام قبول کیا۔“ (سلطان الاذکارفی مناقب غوث الابرار)
نکالا تھا پہلے تو ڈوبے ہوؤں کو
اور اب ڈوبتوں کو بچا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی یہ کرامت اس قدر تواتر کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود برصغیر پاک و ہند کے گوشے گوشے میں اس کو گونج سنائی دیتی ہے۔ (الحمدللہ عزوجل)
اعلٰیحضرت، امام اہلسنت، الشاہ مولانا احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سے اس واقعہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا: “اگرچہ (یہ روایت) نظر سے نہ گزری مگر زبان پر مشہور ہے اور اس میں کوئی امر خلاف شرع نہیں، اس کا انکار نہ کیا جائے۔ (فتاوٰی رضویہ جدید، ج29، 629)
اولیاء کرام علیہم الرحمۃ کا آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے اظہار عقیدت

حضرت شیخ ابو عمر و عثمان بن مرزوق قرشی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ “شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ہمارے شیخ، امام اور سید ہیں اور ان سب کے سردار ہیں جوکہ اس زمانہ میں اللہ عزوجل کے راستہ پر چلتے ہیں یا جن کو حال دیا گیا، سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ان کے احوال کی منزلوں میں امام ہیں، اللہ عزوجل کے سامنے ہمارے کھڑے ہونے میں امام ہیں، اس زمانے کے اولیاء اور تمام بلند مراتب والوں سے اس بات کا سختی سے عہد لیا گیا کہ “ان کے قول کی طرف رجوع کریں اور ان کے مقام کا ادب کریں۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکر احترام المشائخ والعلماء و ثنائہم علیہ، ص 332)
میرا یہ قدم ہر ولی کی گردن پر ہے

حافظ ابوالعز عبدالمغیث بن ابو حرب البغدادی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ بغداد میں حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رباط حلبہ میں حاضر تھے اس وقت ان کی مجلس میں عراق کے اکثر مشائخ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم حاضر تھے۔ اور آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ ان سب حضرات کے سامنے وعظ فرما رہے تھے کہ اسی وقت آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا “قدمی ھذہ علی رقبہ کل ولی اللہ“ یعنی میرا یہ قدم ہر ولی کی گردن پر ہے۔“ یہ سن کر حضرت سیدنا شیخ علی بن الہیتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اٹھے اور منبر شریف کے پاس جاکر آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا قدم مبارک اپنی گردن پر رکھ لیا۔ بعد ازیں (یعنی ان کے بعد) تمام حاضرین نے آگے بڑھ کر اپنی گردنیں جھکا دیں۔ (بہجۃ الاسرار، ذکرحضرمن المشائخ ۔ ۔ ۔ الخ، 21، ملخصاً)
واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلٰی تیرا
سر بھلا کوئی کیا جانے کہ ہے کیسا تیرا
اولیاء ملتے ہیں آنکھیں وہ ہے تلوا تیرا

(1) ۔ ۔ ۔ خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ

جس وقت حضور سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے بغداد مقدس میں ارشاد فرمایا: “قدمی ھذہ علی رقبہ کل ولی اللہ یعنی میرا یہ قدم اللہ عزوجل کے ہر ولی کی گردن پر ہے۔“ تو اس وقت خواجہ غریب نواز سیدنا معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنی جوانی کے دنوں میں ملک خراسان کے دامن کوہ میں عبادت کرتے تھے وہاں بغداد شریف میں ارشاد ہوتا ہے اور یہاں غریب نواز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنا سر جھکایا اور اتنا جھکایا کہ سر مبارک زمینتک پہنچا اور فرمایا: “بلق دماک علی راسی وعینی بلکہ آپ کے دونوں قدم میرے سر پر ہیں اور میری آنکھوں پر ہیں۔“ ( سیرت غوث الثقلین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ، ص 89 )
معلوم ہوا کہ حضور غریب نواز قدس سرہ العالی سلطان الہند ہوئے اور یہاں تمام اولیائے عہدوما بعد آپ کے محکوم اور حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ان پر سلطان کی طرح حاکم ٹھہرے۔“
نہ کیوں سلطنت دونوں جہاں کی ان کو حاصل ہو
سروں پر اپنے لیتے ہیں جو تلوا غوث اعظم کا
(2) ۔ ۔ ۔ شیخ احمد رفاعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ

جب حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ فرمایا تو شیخ احمد رفاعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنی گردن کو جھکا کر عرض کیا: علی رقبتی یعنی میری گردن پر بھی آپ کا قدم ہے۔“ حاضرین نے عرض کیا: “حضور والا ! آپ یہ کیا فرما رہے ہیں ؟“ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ “اس وقت بغداد میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی نے قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ کا اعلان فرمایا ہے اور میں نے گردن جھکا کر تعمیل ارشاد کی ہے۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکرمن حناراسہ من المشایخ عند ماقال ذلک، ص 33)
سروں پر لیتے ہیں جسے تاج والے
تمہارا قدم ہے وہ یاغوث اعظم
(3) ۔ ۔ ۔ خواجہ بہاؤالدین نقشبند رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ

جب آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے قول: “قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ کے متعلق دریافت کیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا: “بل علی عینی یعنی گردن رو درکنار آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا قدم مبارک تو میری آنکھوں پر ہے۔“ (تفریح الخاطر ص 20)
(4) ۔ ۔ ۔ شیخ ماجد الکردی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ

آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ “جب سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ ارشاد فرمایا تھا تو اس وقت کوئی اللہ عزوجل کا ولی زمین پر ایسا نہ تھا کہ جس نے تواضع کرتے ہوئے اور آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے اعلٰی مرتبے کا اعتراف کرتے ہوئے گردن نہ جھکائی ہو تمام دنیائے عالم کے صالح جنات کے وفد آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے دروازے پر حاضر تھے اور سب کے سب آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے دست مبارک پر تائب ہو کر واپس پلٹے۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکر اخبار المشایخ بالکشف عن ہیۃ الحال ۔ ۔ ۔ ص 25)
(5) ۔ ۔ ۔ سرور کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق

شیخ خلیفہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے سرور کائنات، فخر موجودات، باعث تخلیق کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور عرض کیا کہ “حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ کا اعلان فرمایا ہے۔“ تو سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “صدق الشیخ عبدالقادر فکیف لاوھو القطب وانا ارعاہ یعنی شیخ عبدالقادر (رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ) نے سچ کہا ہے اور یہ کیوں نہ کہتے جب کہ وہ قطب زمانہ اور میری زنر نگرانی ہیں۔“ (المرجع السابق، ص 27)
(6) ۔ ۔ ۔ شیخ حیات بن قیس الحرانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ

آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے 3 رمضان المبارک 579ء میں جامع مسجد میں ارشاد فرمایا کہ “جب حضور پرنور غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ کا اعلان فرمایا تو اللہ عزوجل نے تمام اولیاء اللہ کے دلوں کو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے ارشاد کی تعمیل پر گردنیں جھکانے کی برکت سے منور فرمادیا اور ان کے علوم اور حال و احوال میں اسی برکت سے زیادتی اور ترقی عطا فرمائی۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکرمن حناراسہ من المشایخ عند ماقال ذلک، ص30)

ملفوظات غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ

اللہ عزوجل کی اطاعت کرو:

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں: “اللہ عزوجل کی نافرمانی نہیں کرنی چاہئیے اور سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئیے، اس بات پر یقین رکھنا چاہئیے کہ تو اللہ عزوجل کا بندہ ہے اور اللہ عزوجل ہی کی ملکیت میں ہے، اس کی کسی چیز پر اپنا حق ظاہر نہیں کرنا چاہئیے بلکہ اس کا ادب کرنا چاہئیے کیونکہ اس کے تمام کام صحیح درست ہوتے ہیں، اللہ عزوجل کے کاموں کو مقدم سمجھنا چاہئیے۔ اللہ تبارک و تعالٰی ہر قسم کے امور سے بے نیاز ہے اور وہ ہی نعمتیں اور جنت سے عطا فرمانے والا ہے، اور اس کی جنت کی نعمتوں کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ اس نے اپنے بندوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لئے کیا کچھ چھپا رکھا ہے، اس لئے اپنے تمام کام اللہ عزوجل ہی کے سپرد کرنا چاہئیے، اللہ تبارک و تعالٰی نے اپنا فضل و نعمت تم پر پورا کرنے کا عہد کیا ہے اور وہ اسے ضرور پورا فرمائے گا۔ بندے کا شجر ایمانی اس کی حفاظت اور تحفظ کا تقاضا کرتا ہے، شجر ایمانی کی پرورش ضروری ہے، ہمیشہ اس کی آبیاری کرتے رہو، اسے (نیک اعمال) کھاد دیتے رہو تاکہ اس کے پھل پھولیں اور میوے برقرار رہیں اگر یہ میوے اور پھل گر گئے تو شجر ایمانی ویران ہو جائے گا اور اہل ثروت کے ایمان کا درخت حفاظت کے بغیر کمزور ہے لیکن تفکر ایمانی کا درخت پرورش اور حفاظت کی وجہ سے طرح طرح کی نعمتوں سے فیضیاب ہے، اللہ عزوجل اپنے احسان سے لوگوں کو توفیق عطا فرماتا ہے اور ان کو ارفع و اعلٰی مقام عطا فرماتا ہے۔“ اللہ تعالٰی کی نافرمانی نہیں کر، سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور اس کے دربار میں عاجزی سے معذرت کرتے ہوئے اپنی حاجت دکھاتے ہوئے عاجزی کا اظہار کر، آنکھوں کو جھکاتے ہوئے اللہ عزوجل کی مخلوق کی طرف سے توجہ ہٹاکر اپنی خواہشات پر قابو پاتے ہوئے دنیا و آخرت میں اپنی عبادت کا بدلہ نہ چاہتے ہوئے اور بلند مقام کی خواہشات دل سے نکال کر رب عزوجل کی عبادت و ریاضت کرنے کی کوشش کرو۔ (فتوح الغیب مع قلائد الجواہر، ص44)

ایک مومن کو کیسا ہونا چاہئیے ؟

 

حضور سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کا فرمان عالیشان ہے: “محبت الٰہی عزوجل کا تقاضا ہے کہ تو اپنی نگاہوں کو اللہ عزوجل کی رحمت کی طرف لگادے اور کسی کی طرف نگاہ نہ ہو یوں کہ اندھوں کی مانند ہو جائے، جب تک تو غیر کی طرف دیکھتا رہے گا اللہ عزوجل کا فضل نہیں دیکھ پائے گا پس تو اپنے نفس کو مٹاکر اللہ عزوجل ہی کی طرف متوجہ ہو جا، اس طرح تیرے دل کی آنکھ فضل عظیم کی جانب کھل جائے گی اور تو اس کی روشنی اپنے سر کی آنکھوں سے محسوس کرے گا اور پھر تیرے اندر کا نور باہر کو بھی منور کر دے گا، عطائے الٰہی عزوجل سے تو راحت و سکون پائے گا اور اگر تو نے نفس پر ظلم کیا اور مخلوق کی طرف نگاہ کی تو پھر اللہ عزوجل کی طرف سے تیری نگاہ بند ہو جائے گی اور تجھ سے فضل خداوندی رک جائے گا۔“

تو دنیا کی ہر چیز سے آنکھیں بند کرلے اور کسی چیز کی طرف نہ دیکھ، جب تک تو چیز کی طرف متوجہ رہے گا تو اللہ عزوجل کا فضل اور قرب کی راہ تجھ پر نہیں کھلے گی، توحید، قضائے نفس، محویت، ذات کے ذریعے دوسرے راستے بند کردے تو تیرے دل میں اللہ تعالٰی کے فضل کا عظیم دروازہ کھل جائے گا تو اسے ظاہری آنکھوں سے دل، ایمان اور یقین کے نور سے مشاہدہ کر دے گا۔

مذید فرماتے ہیں: تیرا نفس اور اعضاء غیراللہ کی عطا اور وعدہ سے آرام و سکون نہیں پاتے بلکہ اللہ تعالٰی کے وعدے سے آرام و سکون پاتے ہیں۔“ (فتوح الغیب مع قلائد الجواہر، ص 103)

اللہ عزوجل کے ولی کا مقام

 

شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کا ارشاد مبارک ہے: “جب بندہ مخلوق، خواہشات، نفس، ارادہ اور دنیا و آخرت کی آرزوؤں سے فنا ہو جاتا ہے تو اللہ عزوجل کے سوا اس کا کوئی مقصود نہیں ہوتا اور یہ تمام چیز اس کے دل سے نکل جاتی ہیں تو وہ اللہ عزوجل تک پہنچ جاتا ہے، اللہ عزوجل اسے محبوب و مقبول بنا لیتا ہے اس سے محبت کرتا ہے اور مخلوق کے دل میں اس کی محبت پیدا کر دیتا ہے۔ پھر بندہ ایسے مقام پر فائز ہو جاتا ہے کہ وہ صرف اللہ عزوجل اور اس کے قرب کو محبوب رکھتا ہے اس وقت اللہ تعالٰی کا خصوصی فضل اس پر سایہ فگن ہو جاتا ہے۔ اور اس کو اللہ عزوجل نعمتیں عطا فرماتا ہے اور اللہ عزوجل اس پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اور اس سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ رحمت الٰہی عزوجل کے یہ دروازے کبھی اس پر بند نہیں ہوں گے اس وقت وہ اللہ عزوجل کا ہو کر رہ جاتا ہے، اس کے ارادہ سے ارادہ کرتا ہے اور اس کے تدبر سے تدبر کرتا ہے، اس کی چاہت سے چاہتا ہے، اس کی رضا سے راضی ہوتا ہے، اور صرف اللہ عزوجل کے حکم کی پابندی کرتا ہے۔ (فتوح الغیب مع وقلائد الجواہر، المقالہ السادستہ و الخمسون، ص 100)

طریقت کے راستے پر چلنے کا نسخہ

 

حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں: “اگر انسان اپنی طبعی عادات کو چھوڑ کر شریعت مطہرہ کی طرف رجوع کرے تو حقیقت میں یہی اطاعت الٰہی عزوجل ہے، اس سے طریقت کا راستہ آسان ہوتا ہے۔

اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:

وما اتکم الرسول فخذوہ وما نھکم عنہ فانتھوا ( پ28، الحشر: 7 )

ترجمہ کنزالایمان: اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو۔

کیونکہ سرکار مدینہ، قرار قلب و سینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی اتباع ہی اللہ عزوجل کی اطاعت ہے، دل میں اللہ عزوجل کی وحدانیت کے سوا کچھ نہیں رہنا چاہئیے، اس طرح تو فنافی اللہ عزوجل کے مقام پر فائز ہو جائے گا اور تیرے مراتب سے تمام حصے تجھے عطا کئے جائیں گے اللہ عزوجل تیرے حفاظت فرمائے گا، موافقت خداوندی حاصل ہو گی۔

اللہ عزوجل کو کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہئیے ان اعمال کو شریعت کی پیروی کرتے ہوئے بجا لانا چاہئیے، بندے کو ہر حال میں اپنے رب عزوجل کی رضا پر راضی رہنا چاہئیے، اللہ عزوجل کی نعمتوں سے شریقت کی حدود ہی میں رہ کر لطف و فائدہ اٹھانا چاہئیے اور ان دینوی نعمتوں سے تو حضور تاجدار مدینہ راحت قلب و سینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے بھی حداد شرع میں رہ کر فائدہ اٹھانے کی ترغیب دلائی ہے چنانچہ سرکار دو جہاں، رحمت عالمیان صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: “خوشبودار عورت مجھے محبوب ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔“ ( مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الرقائق، الفصل الثالث، الحدیث 5261، ج2، ص 258 )

لٰہذا ان نعمتوں پر اللہ عزوجل کا شکر ادا کرنا واجب ہے، اللہ عزوجل کے انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اور اولیاء عظام رحمھم اللہ تعالٰی کو نعمت الٰہیہ حاصل ہوتی ہے اور وہ اس کو اللہ عزوجل کی حدود میں رہ کر استعمال فرماتے ہیں، انسان کے جسم و روح کی ہدایت و رہنمائی کا مطلب یہ ہے کہ اعتدال کے ساتھ احکام شریعت کی تعمیل ہوتی رہے اور اس میں سیرت انسانی کی تکمیل جاری و ساری رہتی ہے۔ (فتوح الغیب، مترجم، ص 72)

رضائے الٰہی عزوجل

 

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالٰی اپنے بندے کی کوئی دعا قبول فرماتا ہے اور جو چیز بندے نے اللہ تعالٰی سے طلب کی وہ اسے عطا کرتا ہے تو اس سے ارادہ خداوندی میں کوئی فرق نہیں آتا اور نہ نوشتہء تقدیر نے جو لکھ دیا ہے اس کی مخالفت لازم آتی ہے کیونکہ اس کا سوال اپنے وقت پر رب تعالٰی کے ارادہ کے موافق ہوتا ہے اس لئے قبول ہو جاتا ہے اور روز ازل سے جو چیز اس کے مقدر میں ہے وقت آنے پر اسے مل کر رہتی ہے۔ (فتوح العیوب مع قلائد الجواہر، المقالۃ الثالمنۃ والستون، ص 115)

اللہ عزوجل کے محبوب، دانائے غیوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: “اللہ عزوجل پر کسی کا کوئی حق واجب نہیں ہے، اللہ عزوجل جو چاہتا کرتا ہے، جسے چاہے اپنی رحمت سے نواز دے اور جسے چاہے عذاب میں مبتلا کردے، عرش سے فرش اور تحت الثرٰی تک جو کچھ ہے وہ سب کا سب اللہ عزوجل کے قبضے میں ہے، ساری مخلوق اسی کی ہے، ہر چیز کا خالق وہ ہی ہے، اللہ عزوجل کے سوا کوئی پیدا کرنے والا نہیں ہے تو ان سب کے باوجود تو اللہ عزوجل کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہراتا ہے ؟“ (حوالہ)

اللہ عزوجل جسے چاہے اور جس طرح چاہے حکومت و سلطنت عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے واپس لے لیتا ہے، جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت میں مبتلا کر دیتا ہے، اللہ عزوجل کی بہتری سب پر غالب ہے اور وہ جسے چاہتا ہے بے حساب روزی عطا فرماتا ہے۔“ ( فتوح الغیب، مترجم، ص 80 )

ہر حال میں اللہ عزوجل کا شکر ادا کرو

 

حضور سیدنا محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا: “پروردگار عزوجل سے اپنے سابقہ گناہوں کی بخشش اورموجودہ اور آئندہ گناہوں سے بچنے کے سوا اور کچھ نہ مانگ، حسن عبادت، احکام الٰہی عزوجل پر عمل کر، نافرمانی سے بچنے قضاء و قدر کی سختیوں پر رضامندی، آزمائش میں صبر، نعمت و بخشش کی عطا پر شکر کر، خاتمہ بالخیر اور انبیاء علیہم السلام صدیقین، شہداء صالحین جیسے رفیقوں کی رفاقت کی توفیق طلب کر، اور اللہ تعالٰی سے دنیا طلب نہ کر، اور آزمائش و تنگ دستی کے بجائے تونگر و دولت مندی نہ مانگ، بلکہ تقدیر اور تدبیر الٰہی عزوجل پر رضامندی کی دولت کا سوال کر۔ اور جس حال میں اللہ تعالٰی نے تجھے رکھا ہے اس پر ہمیشہ کی حفاظت کی دعا کر، کیونکہ تو نہیں جانتا کہ ان میں تیری بھلائی کس چیز میں ہے، محتاجی و فقرفاقہ میں ہے یا دولت مندی اور تونگری میں آزمائش میں یا عافیت میں ہے، اللہ تعالٰی نے تجھ سے اشیاء کا علم چھپا کر رکھا ہے۔ ان اشیاء کی بھلائیوں اور برائیوں کے جاننے میں وہ یکتا ہے۔

امیر الؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ “مجھے اس بات کی پرواہ نہیں کہ میں کس حال میں صبح کروں گا آیا اس حال پر جس کو میری طبیعت ناپسند کرتی ہے، یا اس حال پر کہ جس کو میری طبیعت پسند کرتی ہے، کیونکہ مجھے معلوم نہیں کہ میری بھلائی اور بہتری کس میں ہے۔ یہ بات اللہ تعالٰی کی تدبیر پر رضامندی اس کی پسندیدگی اور اختیار اور اس کی قضاء پر اطمینان و سکون ہونے کے سبب فرمائی۔ (فتوح الغیب، مع قلائد الجواہر، المقالۃ التاسعۃ والستون، ص 117)

محبت کیا ہے ؟

 

ایک دفعہ حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی سے دریافت کیا گیا کہ “محبت کیا ہے ؟“ تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: “محبت، محبوب کی طرف سے دل میں ایک تشویش ہوتی ہے پھر دنیا اس کے سامنے ایسی ہوتی ہے جیسے انگوٹھی کا حلقہ یا چھوٹا سا ہجوم، محبت ایک نشہ ہے جو ہوش ختم کر دیتا ہے، عاشق ایسے محو ہیں کہ اپنے محبوب کے مشاہدہ کے سوا کسی چیز کا انہیں ہوش نہیں، وہ ایسے بیمار ہیں کہ اپنے مطلوب (یعنی محبوب) کو دیکھے بغیر تندرست نہیں ہوتے، وہ اپنے خالق عزوجل کی محبت کے علاوہ کچھ نہیں چاہتے اور اس کے ذکر کے سوا کسی چیز کی خواہش نہیں رکھتے۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکرشی من اجوبتہ ممایدل علی قدم راسخ، ص 229)

توکل کی حقیقت

 

حضرت محبوب سبحانی قطب ربانی سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے توکل کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا کہ “دل اللہ عزوجل کی طرف لگا رہے اور اس کے غیر سے الگ رہے۔“ نیز ارشاد فرمایا کہ “توکل یہ ہے کہ جن چیزوں پر قدرت حاصل ہے ان کے پوشیدہ راز کو معرفت کی آنکھ سے جھانکنا اور “مذہب معرفت“ میں دل کے یقین کی حقیقت کا نام اعتقاد ہے کیونکہ وہ لازمی امور ہیں ان میں کوئی اعتراض کرنے والا نقص نہیں نکال سکتا۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکرشی من اجوبتہ ممایدل علی قدم راسخ۔ ۔ ۔ ۔ ص 232)

توکل اور اخلاص

 

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے دریافت کیا گیا کہ “توکل کیا ہے ؟“ تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: “توکل کی حقیقت اخلاص کی حقیقت کی طرح ہے اور اخلاص کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی عمل، عوض یعنی بدلہ حاصل کرنے کے لئے نہ کرے اور ایسا ہی توکل ہے کہ اپنی ہمت کو جمع کرکے سکون سے اپنے رب عزوجل کی طرف نکل جائے۔“ (المرجع السابق، ص 233)

دنیا کو دل سے نکال دو

 

حضور سیدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے دنیا کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ “دنیا کو اپنے دل سے مکمل طور پر نکال دے پھر وہ تجھے ضرر یعنی نقصان نہیں پہنچائے گی۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکرشی من اجوبتہ ممایدل علی قدم راسخ ۔ ۔ ۔ ۔، ص 233)

شکر کیا ہے ؟

 

سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے شکر کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا کہ “شکر کی حقیقت یہ ہے کہ عاجزی کرتے ہوئے نعمت دینے والے کی نعمت کا اقرار ہو اور اسی طرح عاجزی کرتے ہوئے اللہ عزوجل کے احسان کو مانے اور یہ سمجھ لے کہ وہ شکر ادا کرنے سے عاجز ہے۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکرشی من اجوبتہ مما یدل علی قدم راسخ۔ ۔ ۔ ص 234)

صبر کی حقیقت

 

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قطب ربانی غوث صمدانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے صبر کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ “صبر یہ ہے کہ بلا و مصیبت کے وقت اللہ عزوجل کے ساتھ حسن ادب رکھے اور اس کے فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کردے۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکرشی من اجوبتہ مما یدل علی قدم راسخ، ص 234)

صدق کیا ہے ؟

 

حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے صدق کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ

(1) ۔ ۔ ۔ اقوال میں صدق تو یہ ہے کہ دل کی موافقت قول کے ساتھ اپنے وقت میں ہو۔

(2) ۔ ۔ ۔ اعمال میں صدق یہ ہے کہ اعمال اس تصور کے ساتھ بجا لائے کہ اللہ عزوجل اس کو دیکھ رہا ہے اور خود کو بھول جائے۔

(3) ۔ ۔ ۔ احوال میں صدق یہ ہے کہ طبیعت انسانی ہمیشہ حالت حق پر قائم رہے اگرچہ دشمن کا خوف ہو یا دوست کا ناحق مطالبہ ہو۔“ (المرجع السابق، ص 235)

وفا کیا ہے ؟

 

حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی سے دریافت کیا گیا کہ وفا کیا ہے ؟ تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا: “وفا یہ ہے کہ اللہ عزوجل کی حرام کردہ چیزوں میں اللہ عزوجل کے حقوق کی رعایت کرتے ہوئے نہ تو دل میں ان کے وسوسوں پر دھیان دے اور نہ ہی ان پر نظر ڈالے اور اللہ عزوجل کی حدود کی اپنے قول اور فعل سے حفاظت کرے، اس کی رضا والے کاموں کی طرف ظاہر و باطن سے پورے طور پر جلدی کی جائے۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکرشی من اجوبتہ ممایدل علی قدم راسخ ۔ ۔ ۔ ص 235)

وجد کیا ہے ؟

 

حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے وجد کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا: “روح اللہ عزوجل کے ذکر کی حلاوت میں مستغرق ہو جائے اور حق تعالٰی کے لئے سچے طور پر غیر کی محبت دل سے نکال دے۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکرشی من اجوبتہ مما یدل علی قدم راسخ، ص 236)

خوف کیا ہے ؟

 

حضرت محبوب سبحانی، قطب ربانی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے خوف کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ “اس کی بہت سی قسمیں ہیں (1) خوف ۔ ۔ ۔ یہ گنہگاروں کو ہوتا ہے (2) رہبہ ۔ ۔ ۔ یہ عابدین کو ہوتا ہے (3) خشیت ۔ ۔ ۔ یہ علماء کو ہوتی ہے۔“ نیز ارشاد فرمایا: “گنہگار کا خوف عذاب سے، عابد کا خود عبادت کے ثواب کے ضائع ہونے سے اور عالم کا خوف طاعات میں شرک حنفی سے ہوتا ہے۔“

پھر آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: “عاشقین کا خوف ملاقات کے فوت ہونے سے ہے اور عارفین کا خوف ہیبت و تعظیم سے ہے اور یہ خوف سب سے بڑھ کر ہے کیونکہ یہ کبھی دور نہیں ہوتا اور ان تمام اقسام کے حاملین جب رحمت و لطف کے مقابل ہو جائیں تو تسکین پا جاتے ہیں۔“ (المرجع السابق)

دعاء و التجا: اے اللہ عزوجل ہمیں حضور سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے ملفوظات شریف کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہمارے دلوں میں غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی محبت کو مذید پختہ فرما دے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم

قادری کر قادری رکھ قادریوں میں اٹھا

قدر عبدالقادر قدرت نما کے واسطے

 

آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا وصال مبارک

 

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے 9 ربیع الاخر 561ہجری میں انتقال فرمایا، وصال کے وقت آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی عمر شریف تقریباً 90 نوے سال تھی۔“ (الزیل علی طبقات الحنابلۃ، ج3، ص 251)

صلوٰۃ الغوثیہ کا طریقہ اور اس کی برکتیں

 

حضرت شیخ ابوالقاسم عمرالبزار رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ “جو شخص مجھ کو مصیبت میں پکارے تو اس کی وہ مصیبت جاتی رہے گی اور جس تکلیف میں مجھے پکارے تو اس کی وہ تکلیف جاتی رہے گی۔“ پھر فرمایا کہ “جو شخص دو رکعت نماز پڑھے اور ہر رکعت میں سورہء فاتحہ کے بعد سورہء اخلاص گیارہ بار پڑھے پھر سلام کے بعد سرور کون و مکاں صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر درود پاک پڑھے اور مجھ کو یاد کرے اور عراق کی جانب گیارہ قدم چلے اور میرا نام لے کر اپنی حاجت طلب کرے تو اللہ عزوجل کے حکم سے اس کی حاجت پوری ہو جائے گی۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکر فضل اصحابہ و بشراہم، ص 197)


“سرکار غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی کرامات“

ڈاکو تائب ہو گئے

 

سرکار بغداد حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ “جب میں علم دین حاصل کرنے کے لئے جیلان سے بغداد قافلے کے ہمراہ روانہ ہوا اور جب ہمدان سے آگے پہنچے تو ساٹھ ڈاکو قافلے پر ٹوٹ پڑے اور سارا قافلہ لوٹ لیا لیکن کسی نے مجھ سے تعرض نہ کیا، ایک ڈاکو میرے پاس آکر پوچھنے لگا اے لڑکے ! تمہارے پاس بھی کچھ ہے ؟ میں نے جواب میں کہا: “ہاں۔“ ڈاکو نے کہا۔ “کیا ہے ؟“ میں نے کہا: ““چالیس دینار۔“ اس نے پوچھا: “کہاں ہیں ؟“ میں نے کہا: “گدڑی کے نیچے۔“

ڈاکو اس راست گوئی کو مذاق تصور کرتا ہوا چلا گیا، اس کے بعد دوسرا ڈاکو آیا اور اس نے بھی اسی طرح کے سوالات کئے اور میں نے یہی جوابات اس کو بھی دئیے اور وہ بھی اسی طرح مذاق سمجھتے ہوئے چلتا بنا، جب سب ڈاکو اپنے سردار کے پاس جمع ہوئے تو انہوں نے اپنے سردار کو میرے بارے میں بتایا تو مجھے وہاں بلا لیا گیا، وہ مال کی تقسیم کرنے میں مصروف تھے۔

ڈاکوؤں کا سرادر مجھ سے مخاطب ہوا: “تمہارے پاس کیا ہے ؟ میں نے کہا: چالیس دینار ہیں، ڈاکوؤں کے سردار نے ڈاکوؤں کو حکم دیتے ہوئے کہا: “اس کی تلاشی لو۔“ تلاشی لینے پر جب سچائی کا اظہار ہوا تو اس نے تعجب سے سوال کیا کہ “تمہیں سچ بولنے پر کس چیز نے آمادہ کیا ؟“ میں نے کہا: “والدہ ماجدہ کی نصیحت نے۔“ سرادر بولا: “وہ نصیحت کیا ہے ؟“ میں نے کہا: “میری والدہ محترمہ نے مجھے ہمیشہ سچ بولنے کی تلقین فرمائی تھی اور میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ سچ بولوں گا۔“

تو ڈاکوؤں کا سردار رو کر کہنے لگا: “یہ بچہ اپنی ماں سے کئے ہوئے وعدہ سے منحرف نہیں ہوا اور میں نے ساری عمر اپنے رب عزوجل سے کئے ہوئے وعدہ کے خلاف گزار دی ہے۔“ اسی وقت وہ ان ساٹھ ڈاکوؤں سمیت میرے ہاتھ پر تائب ہوا اور قافلہ کا لوٹا ہوا مال واپس کر دیا۔“ ( بہجۃ الاسرار، ذلر طریقہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ، ص 168 )

نگاہ ولی میں یہ تاثیر دیکھی

بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی

 

نگاہ غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے چور قطب بن گیا

سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مدینہ منورہ سے حاضری دے کر ننگے پاؤں بغداد شریف کی طرف آ رہے تھے کہ راستہ میں ایک چور کھڑا کسی مسافر کا انتظار کر رہا تھا کہ اس کو لوٹ لے، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جب اس کے قریب پہنچے تو پوچھا: “تم کون ہو ؟“ اس نے جواب دیا کہ “دیہاتی ہوں۔“ مگر آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے کشف کے ذریعے اس کی معصیت اور بدکرداری کو لکھا ہوا دیکھ لیا اور اس چور کے دل میں خیال آیا “شاید یہ غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ہیں۔“ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو اس کے دل میں پیدا ہونے خیال کا علم ہو گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا “میں عبدالقادر ہوں۔“

تو وہ چور سنتے ہی فوراً آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے مبارک قدموں پر گر پڑا اور اس کی زبان پر یاسیدی عبدالقادر شیئاًللہ (یعنی اے میرے سردار عبدالقادر میرے حال پر رحم فرمائیے) جاری ہو گیا۔“ آپ کو اس کی حالت پر رحم آ گیا اور اس کی اصلاح کے لئے بارگاہ الٰہی عزوجل میں متوجہ ہوئے تو غیب سے ندا آئی: “اے غوث اعظم ! اس چور کو سیدھا راستہ دکھا دو اور ہدایت کی طرف رہنمائی فرماتے ہوئے اسے قطب بنا دو۔“ چنانچہ آپ کی نگاہ فیض رساں سے وہ قطبیت کے درجہ پر فائز ہو گیا۔“ (سیرت غوث الثقلین، ص 130)

آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی حکومت

 

حضور سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ قصیدہ غوثیہ شریف میں فرماتے ہیں: “بلاداللہ ملکی تحت حکمی یعنی اللہ عزوجل کے تمام شہر میرے تحت تصرف اور زیر حکومت ہیں۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکر فصول من کلامہ مرصعا ۔ ۔ ۔ الخ، ص 147)

بلاداللہ ملکی تحت حکمی سے ہوا ظاہر

کہ عالم میں ہر اک شے پر ہے قبضہ غوث اعظم کا

 

عصا مبارک چراغ کی طرح روشن ہو گیا:

 

حضرت عبدالملک ذیال رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بیان کرتے ہیں کہ “میں ایک رات حضور پرنور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے مدرسے میں کھڑا تھا آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اندر سے ایک عصا دست اقدس میں لئے ہوئے تشریف فرما ہوئے میرے دل میں خیال آیا کہ “کاش حضور اپنے اس عصا سے کوئی کرامت دکھلائیں۔“ ادھر میرے دل میں یہ خیال گزرا اور ادھر حضور نے عصا کو زمین پر گاڑ دیا تو وہ عصا مثل چراغ کے روشن ہو گیا اور بہت دیر تک روشن رہا پھر حضور پرنور نے اسے اکھیڑ لیا تو وہ عصا جیسا تھا ویسا ہی ہو گیا، اس کے بعد حضور نے فرمایا: “بس اے ذیال ! تم یہی چاہتے تھے۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکر فصول من کلامہ ۔ ۔ ۔ الخ، ص 150)

انگلی مبارک کی کرامت

 

ایک مرتبہ رات میں سرکار بغداد حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے ہمراہ شیخ احمد رفاعی اور عدی بن مسافر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے مزار پر انوار کی زیارت کے لئے تشریف لے گئے، مگر اس وقت اندھیرا بہت زیادہ تھا حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ان کے آگے آگے تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جب کسی پتھر، لکڑی، دیوار یا قبر کے پاس سے گزرتے تو اپنے ہاتھ سے اشارہ فرماتے تو اس وقت آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا ہاتھ مبارک چاند کی طرح روشن ہو جاتا تھا اور اس طرح وہ سب حضرات آپ کے مبارک ہاتھ کی روشنی کے ذریعے حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے مزار مبارک تک پہنچ گئے۔“ (قلائد الجواہر، ملخصاً ص 77)

اللہ عزوجل کا آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے وعدہ

 

حضور سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: “میرے پروردگار عزوجل نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ “جو مسلمان تمہارے مدرسے کے دروازے سے گزرے گا اس کے عذاب میں تخفیف فرماؤں گا۔“ (الطبقات الکبرٰی، منہم عبدالقادر جیلانی، ج1، ص179، و بہجۃ الاسرار، ذکر فصل اصحابہ و بشراہم، ص 194)

مدرسے کے قریب سے گزرنے والے کی بخشش

 

(1) ایک شخص نے خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی کہ “فلاں قبرستان میں ایک شخص دفن کیا گیا ہے جس کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے اس کی قبر سے چیخنے کی آواز آتی ہے جیسے عذاب میں مبتلا ہے۔“ حضور پرنور نے ارشاد فرمایا: “کیا وہ ہم سے بیعت ہے ؟“ عرض کی : “معلوم نہیں۔“ فرمایا: “ہمارے یہاں کے آنے والوں میں تھا ؟“ عرض کی: “معلوم نہیں۔“ فرمایا: “کبھی ہمارے گھر کا کھانا اس نے کھایا ہے ؟“ عرض کی: “یہ بھی معلوم نہیں۔“ حضور غوث الثقلین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے مراقبہ فرمایا اور ذرا دیر میں سر اقدس اٹھایا ہیبت و جلال روئے انور سے ظاہر تھا ارشاد فرمایا: “فرشتے ہم سے یہ کہتے ہیں کہ “ایک بار اس نے ہم کو دیکھا تھا اور دل میں نیک گمان لایا تھا اس وجہ سے بخش دیا گیا۔“ پھر جو اس کی قبر پر جاکر دیکھا تو فریاد و بکا کی آواز آنا بالکل بند ہو گئی۔“ (المرجع السابق)

(2) حضور غوث پاک سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی بارگاہ میں ایک جوان حاضر ہوا اور آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے عرض کرنے لگا کہ “میرے والد کا انتقال ہو گیا ہے میں نے آج ان کو خواب میں دیکھا ہے انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ عذاب قبر میں مبتلا ہیں انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ “حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی بارگاہ میں جاؤ اور میرے لئے ان سے دعاء کا کہو۔“ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اس نوجوان سے فرمایا: “کیا وہ میرے مدرسے کے قریب سے گزرا تھا ؟“ نوجوان نے کہا: “جی ہاں۔“ پھر آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے خاموشی اختیار فرمائی۔

پھر دوسرے روز اس کا بیٹا آیا اور کہنے لگا کہ “میں نے آج رات اپنے والد کو سبز حلہ زیب تن کئے ہوئے خوش و خرم دیکھا ہے۔“ انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ “میں عذاب قبر سے محفوظ ہو گیا ہوں اور جو لباس تو دیکھ رہا ہے وہ حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کی برکت سے مجھے پہنچایا گیا ہے پس اے میرے بیٹے ! تم ان کی بارگاہ میں حاضری کو لازم کر لو۔“

پھر حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی نے فرمایا: “میرے رب عزوجل نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ “میں اس مسلمان کے عذاب میں تخفیف کروں گا جس کا گزر (تمہارے) مدرسۃ المسلمین پر ہو گا۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکر اصحابہ و بشراہم، ص 194)

رہائی مل گئی اس کو عذاب قبر و محشر پر

یہاں پر مل گیا جس کو وسیلہ غوث اعظم کا

حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی محبت قبر میں کام آگئی

 

حضور سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے زمانہء مبارکہ میں ایک بہت ہی گنہگار شخص تھا لیکن اس کے دل میں سرکار بغداد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی محبت ضرور تھی، اس کے مرنے کے بعد جب اس کو دفن کیا گیا اور قبر میں جب منکر نکیر نے سوالات کئے تو اس نے ہر سوال کے جواب میں “عبدالقادر“ کہا، تو منکر نکیر کو رب عزوجل کی بارگاہ عالیہ سے ندا آئی: “اگرچہ یہ بندہ فاسقوں میں سے ہے مگر اس کو میرے محبوب صادق سید عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی ذات سے محبت ہے پس اسی سبب سے میں نے اس کی مغفرت کردی اور حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی محبت اور آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے حسن اعتقاد کی وجہ سے اس کی قبر وسیع کو دیا۔“ ( سیرت غوث الثقلین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ، ص 188 )

عذاب قبر سے نجات مل گئی

 

بغداد شریف کے محلہ باب الازج کے قبرستان میں ایک قبر سے مردہ کے چیخنے کی آواز سنائی دینے کے متعلق لوگوں نے حضرت غوث الثقلین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی بارگاہ میں عرض کیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے پوچھا: “کیا اس قبر والے نے مجھ سے خرقہ پہنا ہے ؟“ لوگوں نے عرض کیا: “حضور والا ! اس کا ہمیں علم نہیں ہے۔“ پھر آپ نے پوچھا کہ “اس نے کبھی میری مجلس میں حاضری دی تھی ؟“ لوگوں نے عرض کیا: “بندہ نواز ! اس کا بھی ہمیں علم نہیں۔“ اس کے بعد آپ نے پوچھا کہ “کیا اس نے میرے پیچھے نماز پڑھی ہے ؟“ لوگوں نے عرض کیا: “کہ ہم اس کے متعلق بھی نہیں جانتے۔“ تو آپ نے ارشاد فرمایا: “المفرط اولی بالخسارۃ یعنی بھولا ہوا شخص ہی خسارہ میں پڑتا ہے۔“

اس کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے مراقبہ فرمایا اور آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے چہرہ مبارک سے جلال، ہیبت اور وقار ظاہر ہونے لگا، آپ نے سرمبارک اٹھا کر فرمایا کہ “فرشتوں نے مجھے کہا ہے: “اس شخص نے آپ کی زیارت کی ہے اور آپ سے حسن ظن اور محبت رکھتا تھا اور اللہ عزوجل نے آپ کے سبب اس پر رحم فرما دیا ہے۔“ اس کے بعد اس قبر سے کبھی بھی آواز نہ سنائی دی۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکر فضل اصحابہ و بشراہم، ص 194)

مرغی زندہ کر دی:

 

ایک بی بی سرکار بغداد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں اپنا بیٹا چھوڑ گئیں کہ “اس کا دل حضور سے گرویدہ ہے اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے لئے اس کی تربیت فرمائیں۔“ آپ نے اسے قبول فرما کر مجاہدے پر لگا دیا اور ایک روز ان کی ماں آئیں دیکھا لڑکا بھوک اور شب بیداری سے بہت کمزور اور زرد رنگ ہو گیا ہے اور اسے جو کی روٹی کھاتے دیکھا جب بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئیں تو دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے سامنے ایک برتن میں مرغی کی ہڈیاں رکھی ہیں جسے حضور رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے تناول فرمایا تھا، عرض کی: “اے میرے مولٰی ! حضور تو مرغی کھائیں اور میرا بچہ جو کی روٹی۔“ یہ سن کر حضور پرنور رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنا دست اقدس ان ہڈیوں پر رکھا اور فرمایا:

“قومی باذن اللہ الذی یحیی العظام وھی رمیم“

یعنی جی اٹھ اللہ (زعوجل) کے حکم سے جو بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ فرمائے گا۔ یہ فرمانا تھا کہ مرغی فوراً زندہ صحیح سالم کھڑی ہو کر آواز کرنے لگی، حضور اقدس رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: “جب تیرا بیٹا اس درجہ تک پہنچ جائے گا تو جو چاہے کھائے۔“ ( بہجۃ الاسرار، ذکر فصول من کلامہ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ، ص 128 )

آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی دعاء کی برکت

 

حضرت شیخ صالح ابوالمظفر اسماعیل بن علی حمیری زریرانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ایک نیک شخص تھے اور شیخ امام علی بن المیتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی صحبت میں رہ چکے تھے وہ فرماتے ہیں کہ شیخ سردار علی بن المیتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جب بیمار ہوتے تو کبھی کبھی میری زمین کی طرف جو کہ زریران میں تھی تشریف لاتے اور وہاں کئی دن گزارتے ایک دفعہ آپ وہیں بیمار ہو گئے تو ان کے پاس میرے غوث صمدانی، قطب ربانی، شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی بغداد سے تیمارداری کے لئے تشریف لائے، دونوں میری زمین پر جمع ہوئے، اس میں دو کھجور کے درخت تھے جو چار برس سے خشک تھے اور انہیں پھل نہیں لگتا تھا ہم نے ان کو کاٹ دینے کا ارادہ کیا تو حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کھڑے ہوئے اور ان میں سے ایک کے نیچے وضو کیا اور دوسرے کے نیچے دو نفل ادا کئے تو وہ سبز ہو گئے اور ان کے پتے نکل آئے اور اسی ہفتہ میں ان کا پھل آ گیا حالانکہ وہ کھجوروں کے پھل کا وقت نہیں تھا میں نے اپنی زمین سےکچھ کھجوریں لے کر آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں حاضر کر دیں آپ نے اس میں سے کھائیں اور مجھ سے کہا: “اللہ عزوجل تیری زمین، تیرے درہم، تیرے صاع اور تیرے دودھ میں برکت دے۔“

حضرت شیخ اسماعیل بن علی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ “میری زمین میں اس سال کی مقدار سے دو سے چار گنا پیدا ہونا شروع ہوا، اب میرا یہ حال ہے کہ جب میں ایک درہم خرچ کرتا ہوں تو اس سے میرے پاس دو سے تین گنا آ جاتا ہے اور جب میں گندم کی سو (100) بوری کسی مکان میں رکھتا ہوں پھر اس میں سے پچاس بوری خرچ کر ڈالتا ہوں اور باقی کو دیکھتا ہوں تو سو بوری موجود ہوتی ہے میرے مویشی اس قدر بچے جنتے ہیں کہ میں ان کا شمار بھول جاتا ہوں اور یہ حالت حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کی برکت سے اب تک باقی ہے۔(بہجۃ الاسرار، ذکر فصول من کلامہ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ، ص 91)

خلیفہ کا مال و دولت خون میں بدل گیا

 

حضرت ابو عبداللہ محمد بن ابوالعباس موصلی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ “ہم ایک رات اپنے شیخ عبدالقادر جیلانی، غوث صمدانی، قطب ربانی قدس سرہ النورانی کے مدرسہ بغداد میں تھے اس وقت آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں بادشاہ المستنجد باللہ ابوالمظفر یوسف حاضر ہوا اس نے آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو سلام کیا اور نصیحت کا خواست گار ہوا اور آپ کی خدمت میں دس تھیلیاں پیش کیں جو دس غلام اٹھائے ہوئے تھے آپ نے فرمایا: “میں ان کی حاجت نہیں رکھتا۔“ اور قبول کرنے سے انکار فرما دیا اس نے بڑی عاجزی کی، تب آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ایک تھیلی اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑی اور دوسری تھیلی بائیں ہاتھ میں پکڑی اور دونوں تھیلیوں کو ہاتھ سے دبا کر نچوڑا کہ وہ دونوں تھیلیاں خون ہو کر بہہ گئیں، آپ نے فرمایا: “اے ابو المظفر ! کیا تمہیں اللہ عزوجل کا خوف نہیں کہ لوگوں کا خون لیتے ہو اور میرے سامنے لاتے ہو۔“ وہ آپ کی یہ بات سن کر حیرانی کے عالم میں بے ہوش ہو گیا۔

پھر حضرت سیدنا حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: “اللہ عزوجل کی قسم ! اگر اس کے حضور نبی پاک، صاحب لولاک، سیاح افلاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے رشتے کا لحاظ نہ ہوتا تو میں خون کو اس طرح چھوڑتا کہ اس کے مکان تک پہنچتا۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکر فصول من کلامہ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ، ص 129)

آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے کرامت کا مطالبہ

 

راوی کا قول ہے کہ میں نے خلیفہ کو ایک دن حضرت سیدنا محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی، قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں دیکھا کہ عرض کر رہا ہے کہ “حضور میں آپ سے کوئی کرامت دیکھنا چاہتا ہوں تاکہ میرا دن اطمینان پائے۔“

آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: “تم کیا چاہتے ہو ؟“ اس نے کہا: “میں غیب سے سیب چاہتا ہوں۔“ اور پورے عراق میں اس وقت سیب نہیں ہوتے تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ہوا میں ہاتھ بڑھایا تو دو سیب آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے ہاتھ میں تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ان میں سے ایک اس کو دیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنے ہاتھ والے سیب کو کاٹا تو نہایت سفید تھا، اس سے مشک کی سی خوشبو آتی تھی اور المستنجد نے اپنے ہاتھ والے سیب کو کاٹا تو اس میں کیڑے تھے وہ کہنے لگا: “یہ کیا بات ہے میں نے آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے ہاتھ میں نہایت عمدہ سیب دیکھا ؟“ آپ نے فرمایا: “ابو المظفر ! تمہارے سیب کو ظلم کے ہاتھ لگے تو اس میں کیڑے پڑ گئے۔“ (المرجع السابق، ص 121)

اندھوں کو بینا اور مردوں کو زندہ کرنا

 

حضرت شیخ برگزیدہ ابو الحسن قرشی فرماتے ہیں کہ “میں اور شیخ ابو الحسن علی بن ہیتی حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں ان کے مدرسہ میں موجود تھے تو ان کے پاس ابو غالب فضل اللہ بن اسمعیل بغدادی ازجی سوداگر حاضر ہوا وہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے عرض کرنے لگا کہ:

اے میرے سردار ! آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے جدامجد حضور پرنور شافع یوم النثور احمد مجتبٰی حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ذیشان ہے کہ “جو شخص دعوت میں بلایا جائے اس کو دعوت قبول کرنی چاہئیے۔“ میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ میرے گھر دعوت پر تشریف لائیں۔“ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: “اگر مجھے اجازت ملی تو میں آؤں گا۔“ پھر کچھ دیر بعد آپ نے مراقبہ کرکے فرمایا: “ہاں آؤں گا۔“

پھر آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنے خچر پر سوار ہوئے، شیخ علی نے آپ کی دائیں رکاب پکڑی اور میں نے بائیں رکاب تھامی اور جب اس کے گھر میں ہم آئے دیکھا تو اس میں بغداد کے مشائخ، علماء اور معززین جمع ہیں، دسترخوان بچھایا گیا جس میں تمام شیریں اور ترش چیزیں کھانے کے لئے موجود تھیں اور ایک بڑا صندوق لایا گیا جو سر بمہر تھا دو آدمی اسے اٹھائے ہوئے تھے اسے دسترخوان کے ایک طرف رکھ دی گیا، تو ابو غالب نے کہا: “بسم اللہ ! اجازت ہے۔“ اس وقت حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مراقبہ میں تھے اور آپ نے کھانا نہ کھایا اور نہ ہی کھانے کی اجازت دی تو کسی نے بھی نہ کھایا، آپ کی ہیبت کے سبب مجلس والوں کا حال ایسا تھا کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں، پھر آپ نے شیخ علی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ “وہ صندوق اٹھا لائیے۔“ ہم اٹھے اور اسے اٹھایا تو وہ وزنی تھا ہم نے صندوق کو آپ کے سامنے لا کر رکھ دیا آپ نے حکم دیا کہ “صندوق کو کھولا جائے۔“

ہم نے کھولا تو اس میں ابو غالب کا لڑکا موجود تھا جو مادر زاد اندھا تھا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اس سے کہا: “کھڑا ہو جا۔“ ہم نے دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے کہنے کی دیر تھی کہ لڑکا دوڑنے لگا اور بینا بھی ہو گیا اور ایسا ہو گیا کہ کبھی بیماری میں مبتلا نہیں تھا، یہ حال دیکھ کر مجلس میں شور برپا ہو گیا اور آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اسی حالت میں باہر نکل آئے اور کچھ نہ کھایا۔

اس کے بعد میں شیخ ابو سعد قیلوی کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ حال بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ “حضرت سید محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی، قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مادر زاد اندھے اور برص والوں کو اچھا کرتے ہیں اور خدا عزوجل کے حکم سے مردے زندہ کرتے ہیں۔“ (الف، بہجۃ الاسرار، ذکر فصلو منہ کلامہ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ، ص 123)

مانگ کیا چاہتا ہے ؟

 

ایک دن میں حضرت سید شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس وقت مجھے کچھ حاجت ہوئی تو میں فی الفور حاجت سے فراغت پاکر حاضر خدمت ہوا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے مجھ سے فرمایا: “مانگ کیا چاہتا ہے ؟“ میں نے عرض کیا کہ “میں یہ چاہتا ہوں۔“ اور میں نے چند امور باطنیہ کا ذکر کیا آپ نے فرمایا: “وہ امور لے لے۔“ پھر میں نے وہ سب باتیں اسی وقت پالیں۔“ (المرجع السابق، ص 124)

مرگی کی بیماری بغداد سے بھاگ گئی

 

ایک شخص حضرت سیدنا محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں آیا اور عرض کرنے لگا کہ “میں اصبہان کا رہنے والا ہوں میری ایک بیوی ہے جس کو اکثر مرگی کا دورہ رہتا ہے اور اس پو کسی تعویذ کا اثر نہیں ہوتا۔“ حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی، قطب ربانی، غوث صمدانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ “یہ ایک جن ہے جو وادی سر اندیپ کا رہنے والا ہے، اس کا نام خانس ہے اور جب تیری بیوی پر مرگی آئے تو اس کے کان میں یہ کہنا کہ “اے خانس ! تمہارے لئے شیخ عبدالقادر جو کہ بغداد میں رہتے ہیں ان کا فرمان ہے کہ “آج کے بعد پھر نہ آنا ورنہ ہلاک ہو جائے گا۔“ تو وہ شخص چلا گیا اور دس سال تک غائب رہا پھر وہ آیا اور ہم نے اس سے دریافت کیا تو اس نے کہا کہ “میں نے شیخ کے حکم کے مطابق کیا پھر اب تک اس پر مرگی کا اثر نہیں ہوا۔“

جھاڑ پھونک کرنے والوں کا مشترکہ بیان ہے “حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی زندگی مبارک میں چالیس برس تک بغداد میں کسی پر مرگی کا اثر نہیں ہوا، جب آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے وصال فرمایا تو وہاں مرگی کا اثر ہوا۔“ (المرجع السابق، ص 140)

فحکمی نافذفی کل حال سے ہوا ظاہر

تصرف انس و جن سب پر ہے آقا غوث اعظم کا

ہوئی اک دیو سے لڑکی رہا اس نام لیوا کی

پڑھا جنگل میں جب اس نے وظیفہ غوث اعظم کا

 

بادلوں پر بھی آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی حکمرانی ہے

 

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ایک دن منبر پر بیٹھے بیان فرما رہے تھے کہ بارش شروع ہو گئی تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نےفرمایا: “میں تو جمع کرتا ہوں اور (اے بادل) تو متفرق کر دیتا ہے۔“ تو بادل مجلس سے ہٹ گیا اور مجلس سے باہر برسنے لگا راوی کہتے ہیں کہ “اللہ عزوجل کی قسم ! شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا کلام ابھی پورا نہیں ہوا تھا کہ بارش ہم سے بند ہو گئی اور ہم سے دائیں بائیں برستی تھی اور ہم پر نہیں برستی تھی۔ (بہجۃ الاسرار، ذکر فصول من کلامہ ۔ ۔ ۔ الخ، ص 147)

مریض کا علاج

 

حضرت ابو عبداللہ محمد بن خضری کے والد فرماتے ہیں کہ “میں نے سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی، قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی تیرہ برس خدمت کی ہے اور آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ میں بہت سی کرامات دیکھی ہیں، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی ایک کرامت یہ بھی تھی کہ جب تمام طبیب کسی مریض کے علاج سے عاجز آ جاتے تو وہ مریض آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں لایا جاتا آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اس مریض کے لئے دعائے خیر فرماتے اور اس پر اپنا رحمت بھرا ہاتھ پھیرتے تو وہ اللہ عزوجل کے حکم سے صحت یاب ہو کر آپ کے سامنے کھڑا ہو جاتا تھا، ایک مرتبہ آپ کی خدمت میں سلطان المستنجد کا قریبی رشتہ دار لایا گیا جو مرض استسقاء میں مبتلا تھا اس کو پیٹ کی بیماری تھی آپ نے اس کے پیٹ پر مبارک ہاتھ پھیرا تو وہ اللہ عزوجل کے حکم سے لاغر پیٹ ہونے کے باوجود کھڑا ہو گیا گویا کہ وہ پہلے کبھی بیمار ہی نہیں تھا۔(بہجۃ الاسرار، ذکر فصول من کلامہ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ، ص 153)

بخار سے رہائی عطا فرمادی

 

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی، قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں ابوالمعالی احمد مظفر بن یوسف بغدادی حنبلی آئے اور کہنے لگے کہ “میرے بیٹے محمد کو کو پندرہ مہینے سے بخار آ رہا ہے۔“ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ “تم جاؤ اور اس کے کان میں کہہ دو “اے ام املدم ! تم سے عبدالقادر (رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ) فرماتے ہیں کہ “میرے بیٹے سے نکل کر حلہ کی طرف چلے جاؤ۔“ ہم نے ابو المعالی سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ “میں گیا اور جس طرح مجھے شیخ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے حکم دیا تھا اسی طرح تو اس دن کے بعد اس کے پاس پھر کبھی بخار نہیں آیا۔(المرجع السابق)

لاغر اونٹنی کی تیز رفتاری:

 

حضرت شیخ محی الدین حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں ابو حفص عمر بن صالح حدادی اپنی اونٹنی لے کر آیا اور عرض کیا کہ “میرا حج کا ارادہ ہے اور یہ میری اونٹنی ہے جو چل نہیں سکتی اور اس کے سوا میرے پاس کوئی اونٹنی نہیں ہے۔“ پس آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اس کو ایک انگلی لگائی اور اس کی پیشانی پر اپنا ہاتھ رکھا، وہ کہتا تھا کہ “اس کی حالت یہ تھی کہ تمام سواریوں سے آگے چلتی تھی حالانکہ وہ اس سے قبل سب سے پیچھے رہتی تھی۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکر فصول من کلامہ مرصعابشی من عجائب، ص 153)

مریدوں کو خطرہ نہیں بحر غم سے

کہ بیڑے کے ہیں ناخدا غوث اعظم

 

سانپ سے گفتگو فرمانا

 

حضرت شیخ ابوالفضل احمد بن صالح فرماتے ہیں کہ “میں حضور سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے ساتھ مدرسہ نظامیہ میں تھا آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے پاس فقہاء اور فقراء جمع تھے اور آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے گفتگو کر رہے تھے اتنے میں ایک بہت بڑا سانپ چھت سے آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی گود میں آگرا تو سب حاضرین وہاں سے ہٹ گئے اور آپ کے سوا وہاں کوئی نہ رہا، وہ آپ کے کپڑوں کے نیچے داخل ہوا اور آپ کے جسم پر سے گزرتا ہوا آپ کی گردن کی طرف سے نکل آیا اور گردن پر لپٹ گیا، اس کے باوجود آپ نے کلام کرنا موقوف نہ فرمایا اور نہ ہی اپنی جگہ سے اٹھے پھر وہ سانپ زمین کی طرف اترا اور آپ کے سامنے اپنی دم پر کھڑا ہو گیا اور آپ سے کلام کرنے لگا آپ نے بھی اس سے کلام فرمایا جس کو ہم میں سے کوئی نہ سمجھا۔

پھر وہ چل دیا تو لوگ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں آئے اور انہوں نے آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے پوچھا کہ “اس نے آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے کیا کہا اور آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اس سے کیا کہا ؟“ آپ نے فرمایا کہ “اس نے مجھ سے کہا کہ “میں نے بہت سے اولیاء کرام کو آزمایا ہے مگر آپ جیسا ثابت قدم کسی کو نہیں دیکھا۔“ میں نے اس سے کہا: “تم ایسے وقت مجھ پر گرے کہ میں قضاوقدر کے متعلق گفتگو کر رہا تھا اور تو ایک کیڑا ہی ہے جس کو قضا حرکت دیتی ہے اور قدر سے ساکن ہو جاتا ہے۔“ تو میں نے اس وقت ارادہ کیا کہ میرا فعل میرے قول کے مخالف نہ ہو۔“ ( المرجع السابق، ص 168 )

ایک جن کی توبہ

 

حضور سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے صاحبزادے حضرت سیدنا ابو عبدالرزاق رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ میرے والد گرامی سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ “میں ایک رات جامع منصور میں نماز پڑھتا تھا کہ میں نے ستونوں پر کسی شے کی حرکت کی آواز سنی پھر ایک بڑا سانپ آیا اور اس نے اپنا منہ میرے سجدے کی جگہ میں کھول دیا، میں نے جب سجدہ کا ارادہ کیا تو اپنے ہاتھ سے اس کو ہٹا دیا اور سجدہ کیا پھر جب میں التحیات کے لئے بیٹھا تو وہ میری ران پر چلتے ہوئے میری گردن پر چڑھ کر اس سے لپٹ گیا، جب میں نے سلام پھیرا تو اس کو نہ دیکھا۔

دوسرے دن میں جامع مسجد سے باہر میدان میں گیا تو ایک شخص کو دیکھا جس کی آنکھیں بلی کی طرح تھیں اور قد لمبا تھا تو میں نے جان لیا کہ یہ جن ہے اس نے مجھ سے کہا: “میں وہی جن ہوں جس کو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے کل رات دیکھا تھا میں نے بہت سے اولیاء کرام رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کو اس طرح آزمایا ہے جس طرح آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو آزمایا مگر آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی طرح ان میں سے کوئی بھی ثابت قدم نہیں رہا، ان میں بعض وہ تھے جو ظاہر و باطن سے گھبرا گئے، بعض وہ تھے جن کے دل میں اضطراب ہوا اور ظاہر میں ثابت قدم رہے، بعض وہ تھے کہ ظاہر میں مضطرب ہوئے اور باطن میں ثابت قدم رہے لیکن میں نے آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو دیکھا کہ آپ نہ ظاہر میں گھبرائے اور نہ ہی باطن میں۔“ اس نے مجھ سے سوال کیا کہ “آپ مجھے اپنے ہاتھ پر توبہ کروائیں۔“ میں نے اسے توبہ کروائی۔“ ( بہجۃ الاسرار، ذکر طریقہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ، ص 168 )

ادائے دستگیری

 

حضرت سیدنا عبداللہ جبائی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ “میں ہمدان میں ایک شخص سے ملا جو دمشق کا رہنے والا تھا اس کا نام “ظریف“ تھا ان کا کہنا ہے کہ “میں بشر قرظی کو نیشاپور کے راستے میں ملا ۔ ۔ ۔ یا ۔ ۔ ۔ یہ کہا کہ خوارنرم کے راستے میں ملا، اس کے ساتھ شکر کے چودہ اونٹ تھے اس نے مجھے بتایا کہ ہم ایسے جنگل میں اترے جو اس قدر خوفناک تھا کہ اس میں خوف کے مارے بھائی بھائی کے ساتھ نہیں ٹھہر سکتا تھا جب ہم نے شب کی ابتداء میں گھٹڑیوں کو اٹھایا تو ہم نے چار اونٹوں کو گم پایا جو سامان سے لدے ہوئے تھے میں نے انہیں تلاش کیا مگر نہ پایا قافلہ تو چل دیا اور میں اپنے اونٹوں کو تلاش کرنے کے لئے قافلہ سے جدا ہو گیا، ساربان نے میری امداد کی اور میرے ساتھ ٹھہر گیا، ہم نے ان کو تلاش کیا لیکن کہیں نہ پایا۔ جب صبح ہوئی تو مجھے حضرت سیدنا محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کا فرمان یاد آیا کہ “اگر تو سختی میں پڑے تو مجھ کو پکارنا تو تجھ سے مصیبت دور ہو جائے گی۔“

(میں نے یوں پکارا) اے شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ! میرے اونٹ گم ہو گئے، اے شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ! میرے اونٹ گم ہو گئے۔“ پھر میں نے آسمان کی طرف دیکھا تو صبح ہو چکی تھی جب روشنی ہوگئی تو میں نے ایک شخص کو ٹیلے پر دیکھا جس کے کپڑے انتہائی سفید تھے اس نے مجھ کو اپنی آستین سے اشارہ کیا کہ “اوپر آؤ۔“ جب ہم ٹیلے پر چڑھے تو کوئی شخص نظر نہ آیا مگر وہ چاروں اونٹ ٹیلے کے نیچے جنگل میں بیٹھے تھے ہم نے ان کو پکڑ لیا اور قافلے سے جاملے۔“ (المرجع السابق، ص 196)

روشن ضمیری

 

حضرت امام شیخ ابوالبقامکبری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ “میں ایک روز حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی مجلس میں حاضر ہوا، میں پہلے کبھی حاضر نہ ہوا تھا اور نہ ہی کبھی آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا کلام سنا تھا، میں نے دل میں کہا کہ “اس مجلس میں حاضر ہو کر اس عجمی کا کلام سنوں ؟“ جب میں مدرسہ میں داخل ہوا اور دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا کلام شروع ہے تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنا کلام موقوف فرمادیا اور فرمایا: “اے آنکھوں اور دل کے اندھے ! تو اس عجمی کے کلام کو کیا سنے گا ؟“ تو میں نہ رہ سکا یہاں تک کہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے منبر کے قریب پہنچ گیا پھر میں نے اپنا سر کھولا اور بارگاہ غوثیت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ میں عرض کیا: “یاحضرت ! مجھے خرقہ پہنائیں۔“ تو حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے مجھے خرقہ پہناکر ارشاد فرمایا: “اے عبداللہ ! اگر اللہ تبارک و تعالٰی نے مجھے تمہارے انجام کی خبر نہ دی ہوتی تو تم ہلاک ہو جاتے۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکر علمہ و تسمیۃ بعض شیوخہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ، ص 211)

شیاطین لعین کے شر سے محفوظ رہنا

 

حضرت شیخ ابو نصرموسٰی بن شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے ارشاد فرمایا: “میں اپنے ایک سفر میں صحرا کی طرف نکلا اور چند دن وہاں ٹھہرا مگر مجھے پانی نہیں ملتا تھا جب مجھے پیاس کی سختی محسوس ہوئی تو ایک بادل نے مجھ پر سایہ کیا اور اس میں سے مجھ پر بارش کے مشابہ ایک چیز گری، میں اس سے سیراب ہو گیا پھر میں نے ایک نور دیکھا جس سے آسمان کا کنارہ روشن ہو گیا اور ایک شکل ظاہر ہوئی جس سے میں نے ایک آواز سنی: “اے عبدالقادر ! میں تیرا رب ہوں اور میں نے تم پر حرام چیزیں حلال کر دی ہیں، تو میں نے اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم پڑھ کر کہا: “اے شیطان لعین ! دور ہو جا۔“ تو روشن کنارہ اندھیرے میں بدل گیا اور وہ شکل دھواں بن گئی پھر اس نے مجھ سے کہا: “اے عبدالقادر ! تم مجھ سے اپنے علم، اپنے رب عزوجل کے حکم اور اپنے مراتب کے سلسلے میں سمجھ بوجھ کے ذریعے نجات پا گئے اور میں نے ایسے ستر (70) مشائخ کو گمراہ کر دیا۔“ میں نے کہا: “یہ صرف میرے رب عزوجل کا فضل و احسان ہے۔“ شیخ ابو نصر موسٰی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ “آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے دریافت کیا گیا کہ “آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے کس طرح جانا کہ وہ شیطان ہے ؟“ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا: “اس کی اس بات سے کہ “بے شک میں نے تیرے لئے حرام چیزوں کو حلال کر دیا۔“ ( بہجۃ الاسرار، ذکرشی من اجوبتہ مماید لعلی قدم راسخ، ص 228 )

غریبوں اور محتاجوں پر رحم

 

شیخ عبداللہ جبائی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بیان کرتے ہیں کہ “ایک مرتبہ حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ “میرے نزدیک بھوکوں کو کھانا کھلانا اور حسن اخلاق کامل زیادہ فضیلت والے اعمال ہیں۔“ پھر ارشاد فرمایا: “میرے ہاتھ میں پیسہ نہیں ٹھہرتا، اگر صبح کو میرے پاس ہزار دینار آئیں تو شام تک ان میں سے ایک پیسہ بھی نہ بچے۔ (کہ غریبوں اور محتاجوں میں تقسیم کردوں اور بھوکے لوگوں کو کھانا کھلا دوں۔) ( قلائد الجواہر، ملخصاً ص8 )

ان کے در سے کوئی خالی جائے ہو سکتا نہیں

ان کے دروازے کھلے ہیں ہر گدا کے واسطے

 

سخاوت کی ایک مثال

 

ایک دفعہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ایک شخص کو کچھ مغموم اور افسردہ دیکھ کر پوچھا: “تمہارا کیا حال ہے ؟“ اس نے عرض کی: “حضور والا ! دریائے دجلہ کے پار جانا چاہتا تھا مگر ملاح نے بغیر کرایہ کے کشتی میں نہیں بٹھایا اور میرے پاس کچھ بھی نہیں۔“ اتنے میں ایک عقیدت مند نے حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر تیس دینار نذرانہ پیش کیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے وہ تیس دینار اس شخص کو دے کر فرمایا: “جاؤ ! یہ تیس دینار اس ملاح کو دے دینا اور کہہ دینا کہ “آئندہ کسی غریب کو دریا عبور کرانے پر انکار نہ کرے۔“ ( اخبار الاخیار، ص 18 )

مہمان نوازی

 

روزانہ رات کو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا دسترخوان بچھایا جاتا تھا جس پر آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنے مہمانوں کے ہمراہ کھانا تناول فرماتے، کمزوروں کی مجلس میں تشریف فرما ہوتے، بیماریوں کی عیادت فرماتے، طلب علم دین میں آنے والی تکالیف پر صبر کرتے۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکرشی من شرائف اخلاقہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ، ص 200)

آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ باطن کے حالات جان لیتے تھے

 

حضرت شیخ ابو محمد الجونی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ “ایک روز میں حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت میں فاقہ کی حالت میں تھا اور میرے اہل و عیال نے بھی کئی دنوں سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ میں نے آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو سلام عرض کیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے سلام کا جواب دے کر فرمایا: “اے الجونی ! بھوک اللہ عزوجل کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے جس کو وہ دوست رکھتا ہے اس کو عطا فرما دیتا ہے۔“ (قلائد الجواہر، ص 57)

مصائب و آلام دور فرما دیتے

 

حضرت شیخ ابوالقاسم عمر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: “جو کوئی مصیبت میں مجھ سے فریاد کرے یا مجھ کو پکارے تو میں اس کی مصیبت کو دور کر دوں گا اور جو کوئی میرے وسیلے سے اللہ عزوجل سے اپنی حاجت طلب کرے گا تو اللہ عزوجل اس کی حاجت کو پورا فرما دے گا۔ (بہجۃ الاسرار، ذکر فضل اصحابہ و بشراہم، ص 197)

اسیروں کے مشکل کشا غوث اعظم

فقیروں کے حاجت روز غوث اعظم

 

عورت کی فریاد پر آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا مدد فرمانا

 

ایک عورت حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی مرید ہوئی، اس پر ایک فاسق شخص عاشق تھا، ایک دن وہ عورت کسی حاجت کے لئے باہر پہاڑ کے غار کی طرف گئی تو اس فاسق شخص کو بھی اس کا علم ہوگیا تو وہ بھی اس کے پیچھے ہو لیا حتٰی کہ اس کو پکڑ لیا، وہ اس کے دامن عصمت کو ناپاک کرنا چاہتا تھا تو اس عورت نے بارگاہ غوثیہ میں اس طرح استغاثہ کیا:

الغیاث یاغوث اعظم الغیاث یاغوث الثقلین

الغیاث یاشیخ محی الدین الغیاث یاسیدی عبدالقادر

اس وقت حضور سیدی غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنے مدرسہ میں وضو فرما رہے تھے آپ نے اس کی فریاد سن کر اپنی کھڑاؤں (لکڑی کے بنے ہوئے جوتے) کو غار کی طرف پھینکا وہ کھڑاویں اس فاسق کے سر پر لگنی شروع ہو گئیں حتٰی کہ وہ مر گیا، وہ عورت آپ کی نعلین مبارک لے کر حاضر خدمت ہوئی اور آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی مجلس میں سارا قصہ بیان کر دیا۔ (تفریح الخاطر، ص 37)

غوث اعظم بمن بے سروسامان مددے

قبلہ دیں مددے کعبی ایماں مددے

 

جانور بھی آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی فرمانبرداری کرتے

 

حضرت ابوالحسن علی الازجی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بیمار ہوئے تو حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ان کے گھر ایک کبوتری اور ایک قمری کو بیٹھے ہوئے دیکھا، حضرت ابوالحسن رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے عرض کیا: “حضور والا (رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ)! یہ کبوتری چھ مہینے سے انڈے نہیں دے رہی اور قمری (فاختہ) نو مہینے سے بولتی نہیں ہے تو حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے کبوتری کے پاس کھڑے ہو کر اس سے فرمایا: “اپنے مالک کو فائدہ پہنچاؤ۔“ اور قمری سے فرمایا کہ “اپنے خالق عزوجل کی تسبیح بیان کرو۔“ تو قمری نے اسی دن سے بولنا شروع کردیا اور کبوتری عمر بھر انڈے دیتی رہی۔ (بہجۃ الاسرار، ذکر فصول من کلامہ مرصعابشی من عجائب، ص 153)

مریضوں کو شفاء دینا اور مردوں جو زندہ کرنا:

 

(1) حضرت شیخ ابو سعید قیلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ القوی نے فرمایا: “حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اللہ عزوجل کے اذن سے مادر زاد اندھوں اور برص کے بیماریوں کو اچھا کرتے ہیں اور مردوں کو زندہ کرتے ہیں۔ (المرجع السابق، ص 124)

(2) شیخ خضرالحسیی الموصلی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ میں حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت اقدس میں تقریباً 13سال تک رہا، اس دوران میں نے آپ کے بہت سے خوراق و کرامات کو دیکھا ان میں سے ایک یہ ہے کہ جس مریض کو طبیب لاعلاج قرار دیتے تھے وہ آپ کے پاس آکر شفایاب ہو جاتا، آپ اس کے لئے دعاء صحت فرماتے اور اس کے جسم پر اپنا ہاتھ مبارک پھیرتے تو اللہ عزوجل اسی وقت اس مریض کو صحت عطا فرما دیتا۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکر فصول من کلامہ مرصعا من عجائب، ص 147)