الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ
صَلَّی اللہُ عَلٰی حَبِیْبِہٖ سَیِّدِنَا مُحَمَّدِ وَّاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَبَارَکَ وَسَلَّمْ

مرکز ولایت حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’کیا میں تمھیں تم میں سے سب سے بہترین لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں!‘‘۔ صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ! کیوں نہیں‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں کہ جب انھیں دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ یاد آجائے‘‘ (امام احمد، المسند) یعنی اگر غافل لوگ بھی اللہ کے نیک بندوں پر نظر ڈالیں تو غافل دل اللہ تعالیٰ کی یاد سے منور ہو جائیں۔ جن بندوں کے پاس بیٹھنے سے علم ملے اور آخرت کی یاد تازہ ہو جائے، وہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء اور خاص بندے ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ محبت فرماتا ہے، ان کی مجلس میں بیٹھنا اور صحبت اختیار کرنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سنت ہے۔ واضح رہے کہ جس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کی تو ان سے ان کی صحبت میں رہنے کی اجازت طلب کی تھی۔ اس واقعہ کی پوری تفصیل سورۂ کہف میں موجود ہے۔
ایک مرتبہ حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ بغداد کی سرزمین پر ہزاروں کے مجمع سے وعظ فرما رہے تھے کہ دورانِ خطاب آپ نے اچانک لوگوں سے خطاب منقطع فرمادیا اور آسمان کی طرف متوجہ ہوکر کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے: ’’اے خضر علیہ السلام! رک جائیے اور خضر محمدیﷺ کی بات سن کر جائیے‘‘۔ حضرت خضر علیہ السلام رک گئے اور آپ کا مکمل خطاب سن کر وہاں سے روانہ ہوئے۔ روایتوں میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت غوث اعظم کی بارگاہ میں عرض کیا کہ ’’میں آپ کے ساتھ رہ کر آپ سے کچھ راز کی باتیں سیکھنا چاہتا ہوں‘‘۔ اس پر حضرت پیران پیر نے فرمایا: ’’اے خضر! میں آپ کو وہی جواب دیتا ہوں، جو آپ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیا تھا کہ آپ میری صحبت میں صبر کے ساتھ نہیں رہ سکتے، کیونکہ آپ خضر اسرائیل ہیں اور میں خضر محمدیﷺ ہوں‘‘۔
ایک مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ترجمہ: ’’میں حسینی ہوں اور میرا مقام مخدع کہ کوئی شخص میرے مقام کو جانچ نہیں سکتا۔ میرا یہ قدم ہر ولی کی گردن پر ہے‘‘۔ روایات میں آتا ہے کہ جب آپ نے فرمایا کہ ’’میرا یہ قدم ہر ولی کی گردن پر ہے، تو اس وقت حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ خراسان کی وادیوں میں مراقب تھے۔ اچانک جب یہ صدا خراسان میں سنی تو آپ نے اپنی گردن جھکادی اور فرمایا: ’’اے شیخ! صرف میری گردن نہیں، بلکہ میرے سر اور میری آنکھوں پر بھی آپ کا قدم مبارک ہے‘‘۔

حضرت شیخ بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کو بہت خواہش تھی کہ اللہ تعالیٰ کا اسم پاک ان کے قلب پر نقش ہو جائے اور اس کی خاطر انھوں نے بہت مجاہدے اور ریاضتیں کیں، لیکن کچھ نہ ہوا۔ تب آپ حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ’’میں چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا اسم میرے قلب پر نقش ہو جائے‘‘۔ حضرت غوث اعظم نے اپنا پنجۂ مبارک حضرت خواجہ بہاء الدین کے دل پر رکھا اور اسی وقت ان کے دل پر اللہ تعالیٰ کا نام نقش ہوگیا۔ اس کے بعد ہی آپ ’’نقشبند‘‘ ہو گئے۔
ایک دن حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کو ان کے چچا حضرت پیرانِ پیر کی بارگاہ میں لے کر حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ ’’شہاب الدان نے علم ظاہر حاصل کرلیا ہے، آپ اسے علم باطن بھی عطا فرمادیں‘‘۔ حضرت غوث اعظم نے حضرت شہاب الدین سہروردی کے سینہ پر اپنا ہاتھ پھیرا تو تمام علم ظاہر مٹ گیا اور پھر آپ کے گریبان میں پھونک ماری تو حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی فرماتے ہیں کہ ’’جو کچھ پڑھا تھا وہ تمام کا تمام بشمول علم باطن سینے میں جوش مارنے لگا‘‘۔ الغرض تمام سلاسل میں سید الاولیاء حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا فیض ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیاء کرام کا سردار بنایا ہے، اسی طرح حضرت غوث پاک کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اور نسبت سے تمام اولیاء کا سردار بنایا۔

حضرت غوث اعظم کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو آپ ہر لحاظ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کرتے نظر آتے ہیں اور یہ سب کچھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لعاب دہن مبارک کا اعجاز ہے۔ روایتوں میں ہے کہ جب آپ نے اپنی تعلیم مکمل کرلی تھی اور ابھی وعظ شروع نہیں فرمایا تھا، تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے عبد القادر! لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنا شروع کرو‘‘۔ اس وقت حضرت غوث اعظم نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ! میں جیلان کا رہنے والا ہوں، بغداد میں آکر علم تو حاصل کرلیا، لیکن عربی میری زبان نہیں ہے اور یہاں بڑے بڑے فصحائِ عرب رہتے ہیں، میں کیسے وعظ کروں‘‘۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عبد القادر! اپنا منہ کھولو!‘‘۔ حضرت غوث اعظم نے جب اپنا منہ کھولا تو آپﷺ نے سات مرتبہ اپنا لعاب دہن مبارک آپ کے منہ میں ڈالا‘‘۔ لعابِ مبارک منہ میں ڈالنے کی دیر تھی کہ آپ کے وعظ و نصیحت کی مجالس میں ہزارہا کی تعداد میں لوگ حاضر اور تائب ہوکر صراطِ مستقیم پر گامزن ہونے لگے۔