الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ
صَلَّی اللہُ عَلٰی حَبِیْبِہٖ سَیِّدِنَا مُحَمَّدِ وَّاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَبَارَکَ وَسَلَّمْ

حضور غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ: دعوتی خدمات کی ایک جھلک

حضورغوث اعظم کی شخصیت 

سید العارفین، حجۃ الواصلین، نائب رحمۃ للعالمین، قطب ِربانی، محبوبِ سبحانی، شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کی سوانحِ حیات کا مطالعہ کرنے سے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ آپ بہت بڑے صاحبِ کرامت بزرگ ہیں یا بہت بڑے عالمِ جلیل ہیں یا بہت بڑے داعی ومبلغ۔ سچ یہ ہے کہ آپ اپنے وقت کے بہت بڑے عالم، بہت بڑے صاحبِ کشف وکرامت بزرگ اور بہت بڑے داعی ومبلغ بھی ہیں۔ آپ کا مرتبہ اﷲ عزوجل کی بارگاہ میں بہت اونچا ہے اور بلا شبہ آپ روئے زمین کے تمام اولیاء اﷲ کے سردار ہیں ؂
محمد کا رسولوں میں ہے جیسے مرتبہ اعلیٰ
ہے افضل اولیا میں یونہی رتبہ غوث اعظم کا

غوث اعظم کی ولادت

حضرت غوثِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رمضان المبارک ۴۷۰ھ میں گیلان کے قصبہ نیف میں پیدا ہوئے، آپ کا لقب پاک محی الدین اور اسم گرامی عبدالقادر، آپ کے والد کا نام ابو صالح موسیٰ جنگی دوست اور والدہ کا نام اُم الخیر فاطمہ تھا۔ آپ کی پیدائش سے قبل اور وقتِ پیدائش وبعدِ پیدائش بے شمار کرامتوں کا ظہور ہوا آپ نے شیر خوارگی کے زمانے میں بھی روزے کے اوقات میں شیرِ مادر نوش نہ فرمایا ؂
رہے پابند احکام شریعت ابتداہی سے
نہ چھوٹا شیر خواری میں بھی روزہ غوث اعظم کا

حضور شیخ کل، تاج اولیا اور غوث الاغواث ہیں۔ ہر سلسلے والا غوث اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے در سے ہی فیض پارہا ہے اور اولیائے جہاں حضور غوث اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے قدم مبارک کے سامنے اپنی اپنی گردنیں جھکائے ہوئے ہیں ؂
جو فرمایا کہ دوشِ اولیا پر ہے قدم میرا
لیا سر کو جھکا کر سب نے تلوا غوث اعظم کا

امام اہل سنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ؂
سر بھلا کیا کوئی جانے کہ ہے کیسا تیرا
اولیا ملتے ہیں آنکھیں وہ ہے تلوا تیرا

تعلیم وتربیت

حضرت غوثِ اعظم نے ابھی عمر کی چند منزلیں ہی طے کی تھیں کہ سر سے باپ کا سایہ اٹھ گیا۔ تعلیم وتربیت کا تمام بوجھ آپ کی والدۂ محترمہ فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے کندھوں پر آپڑا اور انہوں نے اپنے لخت جگر کی تعلیم وتربیت کا فریضہ بحسن وخوبی انجام دیا۔حضرت شیخ ۴۸۸ھ مطابق ۱۰۹۵ء میں ۱۸ سال کی عمر میں علومِ ظاہری کی تحصیل کے لیے بغداد پہنچے اور نامورانِ فن سے بھرپور استفادہ کیا جن میں ابو الوفا علی بن عقیل حنبلی، ابو الخطاب محفوظ کلوذانی حنبلی، ابو غالب محمد بن الحسن باقلانی، ابوسعید محمد بن عبدالکریم، ابو زکریا یحییٰ بن علی تبریزی، عارف باﷲ حضرت حماد باس قدس سرہ اور قاضی ابو سعید مبارک مخزومی قدس سرہم العزیز خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ ان میں آخر الذکر مخزومی سے آپ کو غایت درجہ عقیدت تھی اور پھر یہی آپ کے شیخ طریقت ٹھہرے۔

حضرت مخزومی فرماتے ہیں:
’’عبدالقادرجیلانی نے مجھ سے خرقۂ خلافت پہنا اور میں نے ان سے پہنا ہم میں سے ہر ایک دوسرے سے برکت حاصل کرے گا۔‘‘ (قلائد الجواہر، ص؍۴،۵)

آغازِ رشد وہدایت

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب بغداد میں شریعت وطریقت کے علوم ومعارف حاصل کرچکے تو مخلوقِ خدا کو فیضیاب کرنے کا وقت آگیا۔ ماہ شوال ۵۲۱ھ مطابق ۱۱۲۷ء کو محلہ حلبہ براینہ میں آپ نے وعظ کا آغاز فرمایا۔ (بہجۃ الاسرار؍ ص۹۰)بغداد کے محلہ باب الزج میں حضرت شیخ ابو سعید مخزومی کا ایک مدرسہ تھا جو انہوں نے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سپرد کردیا۔ آپ کے قدومِ میمنت لزوم سے طلبا کا اس قدر ازدحام ہوا کہ قدیم عمارت ناکافی ہوگئی تو بغداد کے علم دوست حضرات نے اسے وسعت دے کر شاندار نئی عمارت تیار کرائی۔ ۵۲۸ھ مطابق ۱۱۳۴ء میں یہ مدرسہ پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا اور حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی نسبت سے مدرسۂ قادریہ مشہور ہوا۔ (قلائد الجواہر، ص:۵)آپ نے وعظ وتبلیغ کا سلسلہ (۵۲۱ھ مطابق ۱۱۶۶ء) تک جاری رکھا اس طرح آپ نے چالیس سال تبلیغ اور تینتیس سال تدریس وافتا کے فرائض انجام دیے۔ (زبدۃ الآثار، ص:۳۹)

غوثِ اعظم کا وعظ

سیدنا غوث اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہفتے میں تین دن خطاب فرماتے جمعہ کی صبح، منگل کی شام اور اتوار کی صبح۔ طریقہ یہ تھا کہ پہلے قاری صاحب قرآنِ پاک کی تلاوت کرتے اس کے بعد حضرت خطاب فرماتے، کبھی سید مسعود ہاشمی تلاوت کرتے کبھی دوسرے دو حضرات تلاوت کرتے جو دونوں بھائی تھے۔ تلاوت سادہ انداز میں لحن کے بغیر ہوتی۔حضرت غوثِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ابتدأً مجھ پر وعظ وتقریر کا اس قدر غلبہ ہوتا کہ خاموش رہنا میری طاقت سے باہر ہوجاتا، میری مجلس میں دو یا تین آدمی سننے والے ہوتے مگر میں نے سلسلۂ کلام جاری رکھا پھر لوگوں کا ہجوم اس طرح بڑھا کہ جگہ تنگ ہوگئی پھر عیدگاہ میں خطاب شروع کیا وہ بھی ناکافی ہوئی تو شہر سے باہر کھلے میدان میں اجتماع ہونے لگا اور ایک ایک مجلس میں ستر ہزار کے قریب سامعین جمع ہونے لگے۔ چار سو افراد قلم ودوات لے کر آپ کے ملفوظات جمع کرتے تھے۔ ( سالنامہ اہل سنت کی آواز ۲۰۰۷ء، ص۸۲ بحوالہ اخبار الاخیار فارسی: ص؍۱۲)مشائخ سے منقول ہے کہ حضرت شیخ جیلانی جب وعظ کے لیے منبر پر بیٹھ کر الحمد ﷲ کہتے تو روئے زمین کا ہر غائب وحاضر ولی خاموش ہوجاتا اسی لیے آپ یہ کلمہ مکرر کہتے اور اس کے درمیان کچھ سکوت فرماتے، بس اولیا اور ملائکہ کا آپ کی مجلس میں ہجوم ہوجاتا۔ جتنے لوگ آپ کی مجلس میں نظر آتے ان سے کہیں زیادہ ایسے حاضرین ہوتے جو نظر نہیں آتے تھے۔ (ایضاص۲۹۴)حضرت شیخ عموماً عربی زبان میں خطاب فرماتے لیکن بعض اوقات فارسی میں بھی خطاب فرماتے اسی لیے آپ کو ذوالبیانین واللسانین اور امام الفریقین کہتے ہیں۔ (اخبار الاخیار ص؍۲۰) آپ کی کرامت یہ تھی کہ دور ونزدیک کے لوگ یکساں طور پر آپ کی آواز سنتے تھے۔ (زبدۃ الآثار ص؍۵۷) (ایضا،ص؍۸۲)

وعظ کی اثر انگیزی

آپ کا وعظ بہت اثر انگیز ہوتا تھا۔ آپ کی زبانِ مبارک میں ایسی روانی اور طاقت تھی کہ مضامین کا ایک سیل رواں ہوتا جو آپ کے دہنِ مبارک سے نکلتا چلا جاتا۔ تاثیر ایسی کہ پتھر دل بھی موم ہوجاتے، سیاہ کار تائب ہوتے، کفر کی آلودگی میں لتھڑے لوگ سرچشمۂ اسلام کے قریب آکر شفاف ہوجاتے، لوگوں پر ایسی کیفیت طاری ہوتی کہ بے حال ہوجاتے اور بہت سے لوگ مرغِ بسمل کی مانند تڑپنے لگتے اور بعض تو وہیں جاں بحق ہوجاتے۔شیخ عمر کیسانی کا بیان ہے کہ آپ کی کوئی مجلس ایسی نہیں ہوتی تھی جس میں کچھ یہودونصاریٰ اسلام نہ قبول کرتے ہوں چور، ڈاکو اور بدمعاش لوگ اپنے جرائم سے توبہ نہ کرتے ہوں اور رافضی وغیرہ اپنے غلط عقائد سے توبہ نہ کرتے ہوں۔ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ ایک عیسائی راہب آپ کی مجلس میں آیا اور مسلمان ہوگیا اس نے لوگوں کو بتایا کہ میں یمن کا باشندہ ہوں میرے دل میں اسلام قبول کرنے کی لگن پیدا ہوئی لیکن میں نے عہد کرلیا کہ میں اس شخص کے ہاتھ پر اسلام لاؤں گا جو دنیا بھر کے مسلمانوں سے افضل ہوگا چنانچہ میں اکثر اسی فکر میں محو رہتا تھا۔ ایک دن میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمارہے ہیں کہ تم بغداد کی طرف چلے جاؤ اور شیخ عبدالقادر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلو کیوں کہ وہ اس زمانے میں سب سے بہتر ہیں۔حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے ہاتھ پر پانچ ہزار سے زیادہ یہودونصاریٰ تائب ہوکر مشرف باسلام ہوئے۔ رہزنوں اور فسق وفجور میں ملوث افراد جنہوں نے میرے ہاتھوں پر توبہ کی ان کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔آپ کی ہر مجلس میں کوئی نہ کوئی یہودی یا عیسائی مشرف باسلام ہوتا، ڈاکو، قاتل اور دیگر جرائم پیشہ اور بدعقیدہ لوگ تائب ہوتے۔ (قلائد الجواہر، ص؍۱۸،۱۹)

اسلوبِ خطابت

ـ سیدنا غوثِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ خطبات میں عموماً سادہ اور عام فہم باتیں ارشاد فرماتے لیکن کبھی کبھی آپ کا دریائے علم موجزن ہوتا تو عالمانہ ومحققانہ نکات بیان فرماتے اور آیتوں کی ایسی تفسیر سناتے کہ بڑے بڑے علما بھی انگشت بدنداں ہوجاتے۔ آپ دینِ متین کی تعلیمات کو بہت پرکشش اور مؤثر انداز مین بیان فرماتے بعض اوقات صحابۂ کرام اور اولیائے عظام کے ارشادات بھی زیبِ سخن بنتے۔آپ پر بغداد کی معاشرتی، سماجی اور دینی زندگی کی بگڑتی ہوئی حالت پوشیدہ نہیں تھی۔ ظلم وستم، جبر واستبداد، تن آسانی اورعیش وطرب میں ڈوبی زندگی کو ہلاکت کے بھنور سے نکال لانا ہی آپ کا مقصد ِاصلی تھا اور اسی لیے آپ نے بغداد کو اپنی دعوت وتبلیغ کا مرکز بنایا۔ بڑے بڑے لوگوں کو ان کی برائیوں پر بے دھڑک ٹوکتے اور ان کی اصلاح کی طرف توجہ فرماتے تھے اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ آپ منجانب اﷲ ایک داعی ومبلغ کی حیثیت سے دنیا میں منتخب فرمائے گئے تھے۔

دعوتی اسلوب کے چندنمونے

آپ نے اس وقت کے ظالموں، عالموں، صوفیوں، فقیہوں سے خطاب فرمایا۔ ان کے مواعظ سے چند اقتباسات نذرِ قارئین ہیں۔
(۱) اے لوگو! تم رمضان میں اپنے نفسوں کو پانی پینے سے روکتے ہو اور جب افطار کا وقت آتا ہے تو مسلمانوں کے خوف سے افطار کرتے ہو اور ان پر ظلم کرکے جو مال حاصل کیا ہے اسے نگلتے ہو۔
(۲) اے لوگو! افسوس کہ تم سیر ہوکر کھاتے ہو اور تمہارے پڑوسی بھوکے رہتے ہیں اور پھر دعویٰ یہ کرتے ہو کہ ہم مومن ہیں، تمہارا ایمان صحیح نہیں دیکھو ہمارے نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے سائل کو دیا کرتے تھے، اپنی اونٹنی کو چارہ ڈالتے، اس کا دودھ دوہتے اور اپنی قمیص سیا کرتے۔ تم ان کی متابعت کا دعویٰ کیسے کرتے ہو جب کہ اقوال وافعال میں ان کی مخالفت کررہے ہو۔

آپ نے اس وقت کے مولویوں، فقہیوں اور زاہدوں کو مخاطب کرکے فرمایا:
(۱) اے مولویو اور فقہیو، زاہدو، عابدو، اے صوفیو! تم میں کوئی ایسا نہیں جو توبہ کا حاجت مند نہ ہو ہمارے پاس تمہاری موت اور حیات کی ساری خبریں ہیں۔ سچی محبت جس میں تغیر نہیں آسکتا وہ محبت ِالٰہی ہے جس کو تم اپنے دل کی آنکھوں سے دیکھتے ہو اور وہی محبت روحانی صدیقوں کی محبت ہے۔
(۴) یا الٰہی تو منافقوں کی شوکت کو توڑ دے اور ان کو ذلیل فرما۔ ان کو توبہ کی توفیق عطا فرما اور ظالموں کا قلع قمع فرمادے زمین کو ان سے پاک فرمادے یا ان کی اصلاح فرما۔ (اقتباسات از :الفتح الربانی)

غوث اعظم کااندازِتبلیغ اورعصرِحاضر

آج جس قدر حضرت غوث اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی کرامت کو بیان کیا جاتا ہے اور ہمارے مبلغین وخطبا حضرات اپنے خطبوں میں زورِبیانی کے ساتھ پیش کرتے ہیں اس سے وہ مقصد حاصل نہیں ہوتا جو ہونا چاہیے۔ اگر عوام کے سامنے آپ کے ان اقدامات ومساعیِ مشکورہ کو جو احیائے دین کے لیے آپ نے کی ہیں ،پیش کیا جائے تو اس سے دو فائدے ہوں گے اول تو وہ حضرات جو صرف اور صرف آپ کو کرامت تک ہی محدود جانتے ہیں ان کی معلومات میں اضافہ ہوگا دوم ہماری عوام اور خواص کے اندر جذبۂ تبلیغ بھی پیدا ہوگا جس سے آج بھی گمراہ انسانوں کو راہِ ہدایت نصیب ہوسکتی ہے بشرطیکہ آج کے مبلغین اور داعیانِ اسلام کی تبلیغ کا طرز وانداز سیدنا غوث اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی تبلیغ کی طرح ہو۔ حضرت غوث اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے شریعت کے تنِ بے جان میں دوبارہ جان ڈال دی اور آپ کی دعوت وتبلیغ نے ہزاروں بھٹکے ہوئے انسانوں کو منزلِ مقصود سے ہم کنار کردیا جس کی وجہ سے آپ کا لقب ’’محی الدین‘‘ مشہور ومعروف ہوگیا۔ آپ کے اسلوبِ دعوت وتبلیغ اور خطبات سے زمانہ آج بھی فیض یاب ہورہا ہے اور قیامت تک ان شاء اﷲ ہوتا رہے گا۔