الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ
صَلَّی اللہُ عَلٰی حَبِیْبِہٖ سَیِّدِنَا مُحَمَّدِ وَّاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَبَارَکَ وَسَلَّمْ

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی المعروف غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ

تعارف:

حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام مبارک ’’عبدالقادر ‘‘ہے، والد صاحب کا نام حضرت ابوصالح موسیٰ جنگی دوستؒ ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت بغداد شریف کے قریب قصبہ جیلان میں ہوئی، ایک قول پر آپ کی ولادت 470ھ میں اور ایک قول پر471ھ میں ہوئی۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ابومحمداور القاب محی الدین، غوث اعظم ،پیران پیر ،محبوب سبحانی وغیرہ ہیں۔(بہجتہ الاسرار صفحہ171)

آپ کا نسب مبارک:

حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نجیب الطرفین سید ہیں، آپ کا شجرہ نسب والد صاحبؒ کی طرف سے گیارہویں پشت میں حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور والدہ صاحبہؒ کی طرف سے چودہویں پشت میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے۔ (بہجتہ الاسرار صفحہ171)
اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
؂ نبوی مینھ ، علوی فصل، بتولی گلشن۔حسنی پھول ،حسینی ہے مہکنا تیرا

مبارک خاندان:

حضورغوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پورا خاندان اولیاء کا خاندان تھا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد حضرت ابو صالح جنگی دوست ؒ ، والدہ حضرت فاطمہؒ ، نانا جان حضرت سید عبداللہ صومعیؒ ، پھوپھی حضرت سیدہ امِ عائشہؒ ، آپ کی ازواج اور آپ کی اولاد وغیرہ سب کے سب متقی ،پرہیز گار اور باکرامت اولیاء تھے۔


آپ کے والد ،نانا جان اور والدہ:

آپؒ ؒ کے والد حضرت سید ابوصالح موسیٰ رحمتہ اللہ علیہ جوانی کے ایام میں ریاضات اور مجاہدات کے دوران ایک مرتبہ شہرکے باہردریا کے کنارے جارہے تھے کئی روز سے کچھ کھایا پیا نہیں تھا، اچانک کنارے کے قریب دریا میں تیرتے ہوئے ایک سیب پر نظر پڑی، اٹھاکر کھالیا، کھانے کے بعد خیال پیدا ہوانجانے کس کا سیب تھا جو میں نے بغیر اجازت کھالیا، اسی پریشانی کے عالم میں سیب کے مالک کی تلاش میں دریاکے کنارے چل پڑے، کچھ دور پہنچے تو دریا کے کناے ایک باغ نظر آیا۔ جس کے درختوں سے پکے ہوئے سیب دریا کے پانی پر لٹکے ہوئے تھے ، آپ سمجھ گئے کہ وہ سیب ان ہی درختوں کا تھا، دریافت کرنے پر معلوم ہواکہ یہ باغ حضرت سید عبداللہ صومعیؒ کا ہے۔ لہذا ان کی خدمت میں حاضر ہوکر بلااجازت سیب کھالینے کی معافی چاہی، حضرت عبداللہ صومعی چونکہ خود خاصانِ خدا میں سے تھے، سجھ گئے کہ یہ انتہائی صالح نوجوان ہے، چنانچہ فرمایا اتنا عرصہ باغ کی رکھوالی کروپھر معافی پر غور کیا جائے گا،حضرت ابوصالح رحمتہ اللہ علیہ نے مقررہ مدت تک بڑی دیانت داری کے ساتھ یہ خدمت سرانجام دی اور پھر معافی کے طلبگار ہوئے، حضرت عبداللہ صومعی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ابھی ایک شرط باقی ہے، وہ یہ کہ میری ایک بیٹی ہے کہ آنکھوں سے اندھی ہے، کانوں سے بہری ہے، منہ سے گونگی ہے، پاؤں سے لنگڑی ہے ، اگر تم اس سے نکاح کرلو تو معافی دے دی جائیگی۔ حضرت ابو صالح ؒ نے منظور کرلیا، نکاح کے بعد جب حجرہ عروسی میں قدم رکھا ، اپنی بیوی کو تمام ظاہری عیوب سے مبرہ ہونے کے ساتھ ساتھ حسن ظاہری سے بھی متصف پایا تو خیال گزرا کہ یہ کوئی اور لڑکی ہے ،گھبرا کر کمرے سے باہر نکل آئے، اسی وقت حضرت عبداللہ صومعیؒ کے پاس پہنچے اور اپنی پریشانی بیان کی تو حضرت عبداللہ صومعی ؒ نے فرمایا، اے شہزادے! یہی تمہاری بیوی ہے ،میں نے جو اس کی صفات بیان کی تھیں وہ سب صحیح ہیں، یہ اندھی ہے اس لیے کہ کسی غیر محرم پر اس کی نظر نہیں پڑی، یہ بہری ہے کہ کبھی خلاف شرع بات اس نے نہیں سنی، یہ لنگڑی اس لئے ہے کہ اس نے کبھی خلاف شرع کام نہیں کیا، یہ لنگڑی اس لیے ہے کہ خلاف شرع کبھی گھر سے باہر قدم نہیں رکھا اور یہ گونگی اس لیے ہے کہ اس نے کبھی خلاف شرع بات نہیں کی۔

یہ تھے حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد اور نانا جان اور ایسی صفات کے مالک تھے۔حضرت غوث پاکؒ کی والدہ حضرت اُم الخیر فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔ایک مرتبہ جیلان میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی ہوگئی، لوگوں نے طلبِ بارش کے لیے نمازِ استسقاء پڑھی مگر بارش نہ ہوئی، لوگ حضورغوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پھوپھی جان حضرت ام عائشہ رحمتہ اللہ علیہا کے گھر مبارک پر حاضر ہوئے اور آپ سے بارش کی دعا کے لیے درخواست کی، آپ اپنے گھر کے صحن میں تشریف لائیں اور زمین پر جھاڑو دے کر اس طرح دعا مانگی: اے میرے مالک! میں نے تو جھاڑو دے دیا اب تو چھڑکاؤ فرمادے، کچھ ہی دیر میں اس قدر بارش ہوئی جیسے مشک کا منہ کھول دیا گیا ہو، لوگ اس حال میں اپنے اپنے گھروں میں واپس آئے کہ سب کے سب بارش سے بھیگے ہوئے تھے اور جیلان شہر خوشحال ہوگیا۔

مبارک بچپن:

حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت رمضان المبارک میں ہوئی، آپ کی والدہ محترمہ کا بیان ہے کہ آپ رمضان میں دن کے وقت دودھ نہیں پیتے تھے، ایک بار رمضان کے چاند کی روئیت میں اختلاف پڑ گیا تو لوگ میرے پاس آئے اور دریافت کیا تو میں نے اُنہیں بتایا کہ میرے بیٹے نے آج دودھ نہیں پیا، جس سے وہ سمجھ گئے کہ چاند ہوگیا، اس واقعہ سے میرے بیٹے کی فضیلت وشرافت کا شہرہ ہوگیا، میرے بیٹے نے کبھی بھی رمضان میں دن کے وقت دودھ نہیں پیا۔(بہجتہ الاسرار صفحہ172،زبدۃ الآثار صفحہ44) 
حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: میں بچپن میں کبھی بچوں کے ساتھ کھیلنے کاارادہ کرتا تو کسی کہنے والے کی آواز سنتا: الی این یا مبارک، یعنی اے برکت والے!کہاں جاتے ہیں؟، میں سہم کر اپنی والدہ کی گود میں چلا جاتا۔
محبوب سبحانی حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے پوچھا: آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے آپ کو ولی کب سے جانا؟ آپؒ نے ارشادفرمایا کہ میری عمردس برس کی تھی میں مکتب میں پڑھنے جاتا تو فرشتے مجھ کو پہنچانے کے لیے میرے ساتھ جاتے اور جب میں مکتب میں پہنچتا تو وہ فرشتے لڑکوں سے فرماتے کہ اللہ عزوجل کے ولی کے بیٹھنے کیلئے جگہ کشادہ کردو۔(بہجتہ الاسرار صفحہ48)
شیخ محمدبن قائد الاوانی رحمتہ اللہ عالیٰ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہم سے فرمایا: حج کے دن بچپن میں مجھے ایک مرتبہ جنگل کی طرف جانے کا اتفاق ہوا اور میں ایک بیل کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا کہ اس بیل نے میری طرف دیکھ کر کہا: یا عبدالقادر مالھذا خلقت یعنی اے عبدالقادر ! تم کو اس قسم کے کاموں کیلئے تو پیدا نہیں کیا گیا۔ میں گھبرا کر گھر لوٹا اور اپنے گھر کی چھت پر چڑھ گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میدان عرفات میں لوگ کھڑے ہیں، اس کے بعد میں نے اپنی والدہ ماجدہ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیا : آپ مجھے بغداد جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں تاکہ میں وہاں جاکر علم دین حاصل کروں۔
والدہ ماجدہ رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہا نے مجھ سے اس کا سب دریافت کیا میں نے بیل والا واقعہ عرض کردیا تو حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ80دینار جو میرے والد ماجد کی وراثت تھے میرے پاس لے آئیں تو میں نے ان میں سے40دینار لے لیے اور40دینار اپنے بھائی سید ابواحمد رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے لئے چھوڑ دئیے، والدہ ماجدہ نے میرے چالیس دینار میری گدڑی میں سی دئیے اور مجھے بغداد جانے کی اجازت عنایت فرمادی ۔�آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھے ہرحال میں راست گوئی اور سچائی کو اپنانے کی تاکید فرمائی اور جیلان کے باہر تک مجھے الوداع کہنے کیلئے تشریف لائیں اور فرمایا : اے میرے پیارے بیٹے! میں تجھے اللہ عزوجل کی رضا اور خوشنودی کی خاطر اپنے پاس سے جدا کرتی ہوں اور اب مجھے تمہارا منہ قیامت کو ہی دیکھنا نصیب ہوگا۔
اسی سفر میں ڈاکوؤں کی توبہ والا مشہور ومعروف واقعہ پیش آیا، آپ کے سچ بتانے(کہ میرے پاس40دینار ہیں) سے متاثر ہوکر ڈاکوؤں کے سردار اور دیگر ڈاکوؤں نے آپ کے مبارک ہاتھ پر توبہ کی۔(بہجتہ الاسرار صفحہ167،168)

آپؒ کی زو جہ محترمہ:

حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے شیخ عبدالجبار رحمتہ اللہ علیہ اپنی والدہ محترمہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ میری والدہ جب بھی کسی اندھیرے مکان میں تشریف لے جاتیں تو وہاں چراغ کی مثل روشنی ہوجاتی تھی ، ایک مرتبہ میرے والد صاحب حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی وہاں تشریف لے آئے، جیسے ہی اس روشنی پر آپ کی نظر پڑی تو وہ روشنی فوراً ہی غائب ہوگئی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یہ شیطان تھا جو تمہاری خدمت کیاکرتا تھا، اسی لیے میں نے اُسے ختم کردیا ، اب میں اس روشنی کو رحمانی نور میں تبدیل کیے دیتا ہوں، اس کے بعد والدہ صاحبہؒ جب بھی کسی اندھیرے مکان میں تشریف لے جاتیں تو وہاں چاند کی مثل نور اور روشنی ہوجاتی ۔ (بہجتہ الاسرار صفحہ196)

آپؒ کی اولادمبارک:

آپ کے شہزادوں میں سے دس کا تذکرہ بہجتہ الاسرار اور زبدۃ الآثار میں بڑی تفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے، آپ کے یہ شہزادے علم میں پختہ ،فقہ میں ماہر ،متقی پرہیز گار اور اللہ تعالیٰ کے اولیاء میں سے تھے، شیخ محقق حضرت عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ زبدۃ الآثار میں فرماتے ہیں:’’صاحبِ بہجۃ الاسرار نے حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد پاک کے علمی کمالات اور دینی خدمات پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، مولف نے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کہ آپ کی اولاد پاک سے لوگوں کو کس قدر علمی فیض حاصل ہوا اور کس قدر علماء کباروفضلاءِ زمانہ نے ان سے تلمذ کیا، اس قسم کے کمالات علمیہ اور فیضانِ روحانیہ کسی بزرگ کی اولاد سے دیکھنے میں نہیں آئے۔ ‘‘(زبدۃ الآثار صفحہ51)

علم مبارک:

اللہ تعالیٰ نے حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بے شمار ظاہری اور باطنی علوم سے نوازا تھا۔

علمِ تفسیر:

بہجتہ الاسرار کے مصنف فرماتے ہیں کہ مجھے حافظ ابوالعباس احمد نے بتایا کہ میں اور تمہارا والد ایک دن حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، ایک قاری نے قرآن مجید کی چند آیات تلاوت کیں اور حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک آیت کی تفسیر میں ایک معنی بیان فرمائے، میں نے آپ کے والد سے دریافت کیا کہ کیا آپ اس معنی کو جانتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں۔ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک اور معنی بیان کیے، میں نے پھر پوچھا تو آپ کے والد نے بتایا کہ ہاں یہ بھی جانتا ہوں، پھر اسی طرح حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے گیارہ معانی بیان کیے، آپ کے والد سب کے بارے میں کہتے رہے کہ میں جانتا ہوں، پھر حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مزید معانی بیان کیے، یہاں تک کہ چالیس معنی بیان کیے، گیارہویں معنی کے بعد سے میں آپ کے والد کے پوچھتا تو وہ نفی میں جواب دیتے کہ میں ان معانی کو نہیں جانتا۔ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر تفسیری معنی کی نسبت اس کے قائل کی طرف ملاتے رہے کہ یہ فلاں کا قول ہے، آپ کے والد حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علمی تبحر پر حیرت زدہ ہوئے۔ آخر میں حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : اب ہم قال سے حال کی طرف آتے ہیں لاالہٰ الا اللہ ، یہ کہنا تھا کہ سارے اہل مجلس مضطرب ہوگئے اور چند لمحوں میں آپ کے والد نے اپنے کپڑے پارہ پارہ کردئیے۔ 
(بہجتہ الاسرار صفحہ226)